اراکینِ پارلیمنٹ

 

اراکینِ پارلیمنٹجدیدملتان کے معمار ،فرزندِاولیاء،اسیرجمہوریت،نقیب ِ سرائیکستان ،سابق وزیر اعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی اپنی امن پسندی،دوست شناسی،انسانی ہمدردی،اپنے مزاج کی شرافت اوراپنے آباکی بے مثال اور غیرمعمولی قومی خدمات کی بدولت معاصرسیاست دانوں میں منفرداور ممتازہیں ۔ تاریخ اور سیاست کا ہر کردارمتنازعہ ہوتا ہے ،اس قانون کا اطلاق سید یوسف رضا گیلانی پر بھی ہوتا ہے چنانچہ پاکستان میں ہر شخص انہیں اپنے اپنے نقطہ نظر سے دیکھتا اور سمجھتا ہے۔مگر ربِ کریم اور صاحب ِالطافِ عمیم کی خاص عنایت سے اُن کے کریڈٹ پریہ تاریخی حقیقت موجود ہے کہ ان کی وزارتِ عظمیٰ کے دوران پاکستان میں کوئی سیاسی اسیر نہ تھا ۔سیدیوسف رضا گیلانی ریاستی جبراورسیاسی انتقام کا نشانہ بنے مگر انہوں نے کسی سے انتقام نہیں لیا۔پاکستان کا سیاسی ماحول جوالزامات اوردُشنام طرازی سے داغدار ہے وہاں سیدیوسف رضا گیلانی کی گفتگو’’وہ بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں‘‘کی مصداق ہوتی ہے۔خدااِس وجودِ گرامی کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔سیدیوسف رضا گیلانی 9 جون 1952کو عروس البلاد کراچی میں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان اشاعت ِ اسلام، فروغِ علم، امن پسندی اور تحریک پاکستان میں شمولیت کے باعث زمانے میں ممتاز رہا ہے۔ گیلانی حسنی الحسینی سید ہیں۔ سید یوسف رضا گیلانی کے جد امجد سید بندگی محمد غوث حلبی 9 ویں صدی عیسوی میں اشاعت ِ اسلام کی غرض سے شام سے ہجرت کرکے اوچ شریف آئے تھے۔ سید بندگی محمد غوث کا سلسلہ نسب پیر پیران حضرت غوث الاعظم میراں محیی الدین شیخ عبدالقادر جیلانی سے ملتا ہے۔ سید بندگی محمد غوث کی اولاد میں سے ایک بزرگ حضرت سید ابو الحسن جمال الدین معروف بہ حضرت موسیٰ پاک شہید ( وفات 1010ھ ) ملتان میں آسودۂ خاک ہیں۔ آپ کا مزار اندرون پاک دروازہ مرجعِ خلائق ہے۔ سید یوسف رضا گیلانی انہی کی اولاد میں سے ہیں۔ گیلانی اولیاء کے مزارات ملتان کے علاوہ دوسرے شہروں میں بھی ہیں تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ ملتان کا گیلانی خاندان قیام پاکستان سے قبل اشاعت اسلام اور قومی اور سماجی خدمات کی بدولت نہایت قدر و عزت کی نگاہ سے دیکھاجاتا تھا ۔ رئوسائے ملتان، بوسن، کھچی، سندھل، کانجو، سید ، ہراج نون، ڈیہڑوغیرہ ان کے عقیدت مند اوردوست تھے۔ قیام پاکستان سے پہلے گیلانی خاندان اسلامی اور قومی تحریکوں میں پیش پیش رہا۔ گیلانی اسلاف نے تحریک خلافت اور تحریک آزادی میں قائدانہ کردار ادا کیا۔ سید زین العابدین گیلانی اسلام کی سربلندی کے لیے سب کچھ قربان کرنے کا جذبہ رکھتے تھے۔ انہوں نے تحریک خلافت میں حصہ لیا۔ پیر صدر الدین شاہ ( پردادا یوسف رضاگیلانی ) کے بیٹے محمد رضا گیلانی بھی تحریک خلافت سے بہت متاثر تھے۔ انہیں ترکوں کے حق میں تقریر کرنے اور طلبہ کو منظم کرنے کی پاداش میں کالج سے خارج کردیا گیا تھا۔ مسلمانوں کی جانی دفاع کے لیے سید زین العابدین نے ایک عسکری دستہ منظم کیا تھا جس کی وجہ سے ہندوئوں کو مسلمانوں پر حملے کی جرأت نہ ہوئی تھی۔ اس سیاسی پس منظر کے ساتھ جب گیلانی خاندان نے آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی تو ملتان میں سبز جھنڈے نظر آنے لگے۔ سید زین العابدین گیلانی، سید علمدار حسین گیلانی ( والد سید یوسف رضا ) اور دوسرے گیلانی مشاہیر نے لاہور میں اس تاریخی اجتماع میں شرکت کی جس میں قرار داد پاکستان منظور کی گئی۔ 1940 کے عشرے میں جب ہندوستان کے مسلمان حلقوں میں ہر طرف ’’بن کے رہے گا پاکستان‘‘، ’’لے کے رہیںگے پاکستان‘‘ کے نعرے لگ رہے تھے۔ اس وقت گیلانی خاندان ہی ملتان میں آزادی کا نقیب تھا۔ بانی ٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کو جب ملتان آنے کی دعوت دی گئی تو انہوں نے کہا کہ گیلانی خاندان کے ہوتے ہوئے مجھے ملتان جانے کی ضرورت نہیں اور پھر تاریخ نے گواہی دی کہ قائد اعظم کا ادراک درست تھاانگریز حکومت نے ہندوستان میں قانون ساز اسمبلیوں کے انتخابات کرائے۔ 9 جنوری 1946 کو آل انڈیا مسلم لیگ نے صوبہ سرحد کے سوا ہندوستان کے تمام مسلم اکثریتی صوبوں میں بھاری اکثریت حاصل کی مسلم اقلیت کے صوبوں میں بھی مسلم لیگ نے مسلمان نشستوں پر اکثریت حاصل کی۔ ملتان میں مسلم لیگ نے الیکشن سویپ کیا۔ یہاں سے عام نشستوں پر مسلم لیگ کے تمام امیدوار سید غلام مصطفی شاہ ( دادا سید یوسف رضا گیلانی ) سید مخدوم محمد رضا شاہ گیلانی، نواب اللہ یار خان دولتانہ، ملک محمد اکرم خان بوسن، پیر بڈھن شاہ کھگہ اور سید نوبہار شاہ کامیاب ہوکر پنجاب اسمبلی کے رکن ( MLA ) بنے۔ مزید برآں وہاڑی کے نواب میاں ممتاز محمد خان دولتانہ نارووال ( تب ضلع سیالکوٹ) سے جبکہ جہانیاں کے چودھری ظفر اللہ واہلہ اجنالہ ضلع امرتسر سے MLA منتخب ہوئے۔ نیز سید شیرشاہ گیلانی سنٹرل اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ ان انتخابات کے نتیجے میں پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ گیلانی خاندان کو یہ اعزاز ملا کہ اس خاندان کے دو حقیقی بھائی سیدغلام مصطفی شاہ اور سید محمد رضا شاہ گیلانی MLA منتخب ہوئے ۔ گیلانی خاندان کی انتخابی کامرانیوں کا تذکرہ اس کتاب کے مختلف صفحات پر موجود ہیں۔ قیام پاکستان سے پہلے اور بعد میں انجمن اسلامیہ ملتان کے زیر اہتمام گیلانی خاندان نے ملتان میں سکول اور کالج قائم کئے اور تاریخ نے دیکھا کہ یہ تعلیمی ادارے ایک انقلاب کی بنیاد ثابت ہوئے۔ گیلانی خاندان پاکستان کی ایک مؤثر سیاسی قوت ہے۔ اس کی جڑیں عوام میں بہت گہری ہیں۔ سید یوسف رضا گیلانی نے ابتدائی تعلیم سینٹ میریز کانونٹ ملتان سے حاصل کی اور بعد میں معروف تعلیمی ادارے لاسال ہائی سکول ملتان میں داخل ہوئے۔ سید یوسف رضا گیلانی نے اپنی کتاب چاہِ یوسف سے صدا میں لاسال سکول کی یادوں کو قلمبند کیاہے۔ میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد سید یوسف رضا گیلانی نے ولایت حسین اسلامیہ کالج ملتان میں داخلہ لیا۔ یہ کالج انجمن اسلامیہ ملتان کے کارناموں میں سے ایک ہے۔ یہاں سے سید یوسف رضا گیلانی نے ایف ایس سی ( پری میڈیکل) کا امتحان پاس کیا۔ اور مزید تعلیم کے لیے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوئے۔ جہاں سے انہوں نے بی اے تک تعلیم حاصل کی بعد میں وہ پنجاب یونیورسٹی لاہور کے شعبہ صحافت میں داخل ہوئے۔ 1976 میں سید یوسف رضا گیلانی نے ایم اے صحافت کا امتحان پاس کیا۔ ان کی شادی پیر اسرار شاہ کی دختر سے انجام پائی۔ 9 اگست 1978 کو ان کے والد سید علمدار حسین گیلانی وفات پاگئے۔ سید یوسف رضا گیلانی 1978 میں مسلم لیگ کی سنٹرل کمیٹی کے رکن بنے اور 1982 میں وفاقی مجلس شوریٰ کے رکن نامزد ہوئے۔ 1983 میں ڈسٹرکٹ کونسل ملتان کے رکن منتخب ہوئے اور ایک دلچسپ انتخابی معرکے میں سید فخر امام کو شکست دے کر ڈسٹرکٹ کونسل ملتان کے چیئرمین منتخب ہوئے۔ 1985 کے غیر جماعتی انتخابات میں لودھراں سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 1986 میں وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی کابینہ میں ریلوے کے وزیر مقرر ہوئے۔ 1988 میں پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے۔ اسی سال تاریخی شخصیت میاں نواز شریف کو شکست دے کر ملتان سے پی پی پی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ وہ وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کی کابینہ میں پہلے سیاحت کے اور بعد میں ہائوسنگ و تعمیرات کے وزیر مقرر ہوئے۔ 1990 میں اپنے والد کے کزن اور گیلانی خاندان کی ممتاز ترین شخصیت مخدوم سید حامد رضا گیلانی وغیرہ کو شکست دے کر قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ سید یوسف رضا گیلانی 1993 میں نگران وزیر اعظم میر بلخ شیر مزاری کی کابینہ میں بلدیات و دیہی ترقی کے وزیر مقرر ہوئے ۔ 1993 میں ایک مرتبہ پھر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور بعد ازاں قومی اسمبلی کے سپیکر منتخب ہوئے۔ سید یوسف رضا گیلانی 1997 میں سکندر حیات خان بوسن کے مقابلے میں قومی اسمبلی کا الیکشن ہار گئے۔ 1998 میں سید یوسف رضا گیلانی پاکستان پیپلز پارٹی کے وائس چیئرمین منتخب ہوئے۔ سید یوسف رضا گیلانی مشرف دور میں سیاسی انتقام کا نشانہ بنے اور ایک طویل عرصہ جیل میں رہے۔ وہ 18 فروری 2008 کو پانچویں مرتبہ قومی اسمبلی کے رکن اور بعد ازاں 26مارچ 2008 کو وزیر اعظم پاکستان منتخب ہوئے۔سید یوسف رضا گیلانی نے قومی اسمبلی میں اپنی افتتاحی تقریب میں چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی رہائی کا حکم دیا ۔ 16مارچ 2009کو انہوں نے جسٹس افتخار محمد چودھری کی چیف جسٹس آف پاکستان کے منصب پر بحالی کا تاریخی حکم صادر کیا۔13مارچ2011کو سید یوسف رضا گیلانی نے جلال پور میں ایک جلسۂ عام میں اعلان کیا کہ پاکستان پیپلز پارٹی سرائیکی صوبے کے قیام کو اپنے منشورکا حصہ بنائے گی جس کے بعد سرائیکی صوبہ تحریک کو بہت تقویت ملی۔ سید یوسف رضا گیلانی نے مفاہمت کی سیاست اپنائی جس کی وجہ سے انکی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔ سید یوسف رضا گیلانی کے احکاما ت سے پاکستان او خاص طور پر ملتان میں بہت سے تعمیراتی منصوبے شروع ہوئے ہیں۔ جن میں ملتان تا فیصل آباد موٹروے ہیڈ محمد والا،جلال پور اوچ شریف موسیٰ پاک برج تعمیر ایئر پورٹ ملتان ، ملتان شہر میں سات فلائی اوور،بے نظیر برج چاچڑاں شریف، متعدد پارک اورہسپتال ملک بھر میںآئی ٹی یونیورسٹیوںکا قیام اوردوسرے منصوبے شامل ہیں۔ 6 جنوری 2012ء کو قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ ہم سرائیکی صوبہ بنائیں گے۔ 19 جون        2012ء کوسید یوسف رضا گیلانی ایک متنازعہ عدالتی فیصلے کے باعث وزارتِ عظمیٰ کے منصب سے معزول کردیئے گئے

 

الحاج محمود خان کھچی (مرحوم)

سرگانہ تحصیل میلسی میں آسودۂ خاک سابق رکنِ پنجاب اسمبلی الحاج محمود خان کھچی کا بڑا نام اور وقار تھا وہ معروف زمیندار نور محمد خان کھچی کے بیٹے، سابق رکنِ ڈسٹرکٹ بورڈ ملتان خان شیر محمد خان کھچی کے بھتیجے،سابق وائس چیئرمین ڈسٹرکٹ بورڈ ملتان، خان احمد خان کھچی اور حاجی محمد نواز خان کھچی کے بھائی اور سابق رکنِ پنجاب اسمبلی و مشیرِ وزیرِ اعلیٰ پنجاب الحاج غلام حیدر خان کے چچا تھے۔ 

سرگانہ کی کھچی فیملی کا شمار اُن خاندانوں میں ہوتا ہے جن کا سیاسی اور سماجی اثر قیامِ پاکستان سے قبل قائم ہوچکا تھا۔ کھچی اسلاف 1945-46ء کے تاریخی انتخابات میں آل انڈیا مسلم لیگ کے نامزد اُمیدوار پنجاب اسمبلی خان بہادر اللہ یار خان دولتانہ (دادا تہمینہ دولتانہ) کی انتخابی مہم میں حصہ لے کر اُنہیں کامیابی سے ہمکنار کیا تھا۔ رؤسائے پنجاب اور سندھ کے ساتھ کھچی فیملی کے تعلقات بہت پرانے ہیں۔ دولتانہ، گیلانی، قریشی اور لنگڑیال خاندان کے ساتھ کھچی فیملی کا تعلق 100 سال پر محیط ہے۔ 

قریشی مشاہیر مخدوم مرید حسین قریشی (دادا مخدوم شاہ محمود قریشی)، نواب عاشق حسین قریشی، سابق گورنر پنجاب مخدوم سجاد حسین قریشی مرحوم، سابق وزیرِ اعلیٰ پنجاب نواب صادق حسین قریشی مرحوم، گیلانی اسلاف مخدوم سید علمدار حسین گیلانی، سید شوکت حسین گیلانی، سید ولایت حسین گیلانی، سید رحمت حسین گیلانی، تحریکِ پاکستان کے رہنما سابق وزیرِ اعلیٰ پنجاب میاں ممتاز محمد خان دولتانہ، نواب اللہ یار خان دولتانہ، میاں ریاض احمد خان دولتانہ، لنگڑیال مشاہیر ملک فتح شیر لنگڑیال، اور ملک اللہ یار خان لنگڑیال دکھ سکھ کے مواقع پر سرگانہ آتے تھے۔ علاوہ ازیں میاں محمدنوازشریف وزیرِ اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف، چودھری پرویز الٰہی، نواب بہاول پور نواب صادق محمد، سید مردان علی شاہ معروف بہ پیر پگاڑو، تحریکِ پاکستان کے کارکن سید نو بہار شاہ، پیر بڈھن شاہ کھگہ، رحمت اللہ بھئیں، میاں بہادر سلطان، محمد امین خان کانجو، غلام رسول چشتی بھی مختلف اوقات میں سرگانہ آئے تھے۔ سابق قومی اسمبلی کے قائدِ حزبِ اختلاف سردار بہادر خان ملتان میں الحاج احمد خان کھچی کے ہاں قیام کرتے تھے۔ 

الحاج محمود خان کھچی 1930ء میں پیدا ہوئے۔ وہ میلسی کی تاریخی درسگاہ گورنمنٹ ہائی سکول میلسی میں زیرِ تعلیم رہے یہاں سے اُنہوں نے میٹرک تک تعلیم حاصل کی، بعد میں وہ گورنمنٹ ایمرسن کالج ملتان میں داخل ہوئے اورپنجاب یونیورسٹی لاہور سے بی اے کا امتحان پاس کیا۔ الحاج محمود خان کھچی نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد کچھ عرصہ پولیس میں خدمات انجام دیں اور بعد میں ملازمت کو اپنے مزاج کے مطابق نہ پا کر مستعفی ہوگئے۔ اُنہوں نے اپنے بھائی الحاج احمد خان کھچی کی رہنمائی میں سیاسی خدمات کا آغاز کیا۔ محمود خان کھچی نے وعدے کی پاسداری اور صاف گوئی کو اُصول بنایا۔ یہ اُصول انہوں نے اپنے چچا شیر محمد خان کھچی سے سیکھا تھا۔

1964-65ء کے صدارتی انتخابات میں کھچی برادران نے محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ دیا۔ اس موقع پر حاجی محمد نواز خان کھچی میلسی میں محترمہ فاطمہ جناح کے پولنگ ایجنٹ تھے۔ ان انتخابات میں آمر پاکستان محمد ایوب خان کے خوف سے بہت سے لوگ مادرِ ملت کا ساتھ چھوڑ گئے تھے۔ مگر سرگانہ کے کھچی ثابت قدم رہے۔ سرگانہ کی کھچی فیملی نے کونسل مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔ 1970ء میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ملک کے پہلے عام انتخابات میں خان احمد خان کھچی نے میاں محمد مشتاق خان بھابھہ (اُمیدوار پنجاب اسمبلی) اور میاں سعید اختر کھگہ (اُمیدوار پنجاب اسمبلی) کے ساتھ انتخابی پینل بنا کر قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا تھا۔ 1979ء میں الحاج محمود خان کھچی یونین کونسل سرگانہ کے چیئرمین منتخب ہوئے۔ علاوہ ازیں ان کے نامور بھتیجے الحاج غلام حیدر خان کھچی ڈسٹرکٹ کونسل وہاڑی کے رکن اور بعد ازاں وائس چیئرمین منتخب ہوئے۔ 

الحاج غلام حیدر خان کھچی 5 مرتبہ (1985ء، 1988، 1990، 1993، 1997ء) مسلسل پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ 1997ء میں الحاج غلام حیدر خان کھچی کی اچانک وفات کے بعد الحاج محمود خان کھچی ایک ضمنی انتخاب میں اظہر احمد خان یوسف زئی (بعد ازاں ایم این اے) کو شکست دے کر پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 1998 ء میں الحاج محمودخا ن کھچی مرحوم کے بھتیجے محمدافضل خان کھچی ڈسٹرکٹ کونسل وہاڑی کے وائس چیئرمین منتخب ہوئے۔

الحاج محمود خان کھچی مسلم لیگ (ن) کے ان کارکنوں میں شامل تھے جنہوں نے 12 اکتوبر 1999ء کے فوجی انقلاب کے بعد میاں محمد نواز شریف کا ساتھ نہیں چھوڑا تھا۔ چودھری پرویز اِلٰہی نے ان سے رابطہ کیا مگر وہ مسلم لیگ ق میں شامل نہیں ہوئے۔ 

10اکتوبر 2002ء کو الحاج محمود خان کھچی نے مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑا جس میں وہ مسلم لیگ (ق) کے اُمیدوار جاوید اقبال خان کھچی سے 136 ووٹوں سے ہار گئے۔ اُن کا خیال تھا کہ ان کے ساتھ دھاندلی کی گئی تھی۔ الحاج محمود خان کھچی نے پھر صوبائی اسمبلی کا الیکشن نہیں لڑا۔ اُنکی نشست پر انکے بھتیجے الحاج محمد افضل خان نے 2 مرتبہ الیکشن لڑا۔ 

الحاج محمود خان کھچی سرگانہ میں اپنے بھائی حاجی محمد نواز خان کے ساتھ بیٹھ کر لوگوں کے مسائل سنتے تھے اور اُنکے حل کیلئے اُنکی مدد اور رہنمائی کرتے۔ 25 دسمبر 2014ء کو حاجی محمود خان کھچی مختصر علالت کے بعد وفات پاگئے۔ چند روز قبل انکے بھتیجے محمد اکبر خان فوت ہوئے تھے۔ الحاج محمود خان کھچی کی وفات کی خبر بہت دور تک سنی گئی۔ عوام و خواص کی ایک کثیر تعداد نے انکی نمازِ جنازہ میں شرکت کی اور مرحوم کیلئے مغفرت کی دُعا کی۔ 

سابق وزیرِ اعظم سیّد یوسف رضا گیلانی، سابق وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی، وفاقی وزیر سکندر حیات خان بوسن، سابق سپیکر قومی اسمبلی سیّد فخر امام، رکنِ قومی اسمبلی سابق سپیکر پنجاب اسمبلی الحاج سعید احمد خان منیس، سابق وفاقی وزیر رکنِ قومی اسمبلی رہنما مسلم لیگ (ن) تہمینہ دولتانہ، وفاقی وزیر ریاض حسین پیرزادہ، صدر پاکستان تحریکِ انصاف جنوبی پنجاب میاں نور محمد خان بھابھہ، مذہبی سکالر علامہ ارشد سعید کاظمی، صوبائی وزیر خصوصی تعلیم آصف سعید خان منیس، سابق صوبائی وزیر الحاج عرفان احمد خان ڈاہا، سابق صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ پیر غلام محیی الدین چشتی، سابق صوبائی وزیرِ رکنِ قومی اسمبلی چودھری نذیر احمد ارائیں، سابق ناظم و رکنِ قومی اسمبلی سید شاہد مہدی نسیم، سابق رکنِ پنجاب اسمبلی و سابق رکنِ سینٹ پیر ذوالفقار علی چشتی، اراکین قومی اسمبلی چودھری طاہر اقبال، سردار رضا حیات ہراج، عبدالرحمن خان کانجو محمد صدیق خان بلوچ، سابق اراکین قومی اسمبلی رانا ممتاز احمد نون، محمود حیات خان عرف ٹوچی خان، اظہر احمد خان یوسف زئی، اراکینِ پنجاب اسمبلی جہاں زیب خان کھچی، چودھری محمد یوسف کسیلہ، میاں ثاقب خورشید، سردار اکبر حیات ہراج، میاں جہانگیر سلطان بھٹہ، سابق اراکین پنجاب اسمبلی ملک نوشیر خان لنگڑیال، میاں سکندر علی خان دولتانہ، جاوید اقبال خان کھچی، رانا اعجاز احمد نون، ڈاکٹر ملک محمد اختر اور ممتاز شخصیات جام غفار ڈاہر(سندھ)، خان محمد خان جمالی (بلوچستان) رائے حسین کھرل، سردار اظہر خان لغاری (رحیم یار خان)، میاں شفیع محمد (نائب صدر پاکستان پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب)، سردارمنصور سکندر خان کھوسہ، ماہرِ زراعت الحاج ریاض احمد سنڈھل اور زندگی کے مخلتف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے معروف افراد نے الحاج محمود خان کھچی کی وفات پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا اور مرحوم کے گھر جا کر انکے بیٹوں سردار اسلم حیات خان کھچی اور ربّ نواز خان کھچی سے تعزیت کی۔ سردار اسلم حیات خان کھچی وہاڑی کے ایک معروف وکیل تھے، رب نواز خان کھچی آبائی پیشہ زراعت سے منسلک ہیں۔ الحاج محمود خان کھچی کی موت ایک شخص کی نہیں ایک عہد کی موت تھی۔

۔