شخصیات

الحاج میاں ریاض احمد سنڈھل

ماہرِ زراعت الحاج ریاض احمد سنڈھل کسانوں کے سچے دوست تھے۔ وہ ملتان ڈویژن سے تعلق رکھنے والے پہلے زمیندار تھے۔ جنہوں نے مطالبہ کیا تھا کہ نہری پانی کے مسئلے کو کشمیر ایجنڈے میں شامل کیا جائے۔ کسانوں کے مسائل پر ملتان ڈویژن میں سب سے پہلے الحاج ریاض احمد سنڈھل ہی آواز بلند کرتے تھے۔ وہ اخبارات کے ذریعے کسانوں کے مسائل کی نشاندہی کرتے اور انکے حل کے لیے قابلِ عمل تجاویز پیش کرتے تھے۔ نہری پانی کی منصفانہ تقسیم اور زرعی اجناس کے معقول نرخوں پر فروخت کے لیے جدوجہد کرنا ان کی زندگی کے دو اہم مقاصد تھے ۔وہ سمجھتے تھے کہ 19 ستمبر1960 ء کا سندھ طاس معاہدہ کسانوں کی موت کا پروانہ تھا جس کی وجہ سے سرائیکی وسیب میں 15 لاکھ ایکڑاراضی بنجر ہوگئی۔ الحاج میاں ریاض احمد سنڈھل کے والد الحاج میاں غلام حیدر سنڈھل اور چچا میاں غلام قادر سنڈھل تحریک پاکستان کے کارکن تھے۔ مسلم لیگ میں شمولیت کے موقع پر قائداعظم نے خود میاں غلام قادر سنڈھل کارکنیت فارم پر کیا تھا۔ سنڈھل قدیمی زمیندار ہیں۔تحصیل میلسی میں انکی زرعی زمینیں ہیں ملتان کے گیلانی اور قریشی خاندان کے ساتھ سنڈھل خاندان کے دوستی ایک سو سال کا احاطہ کرتی ہے۔ گیلانی اور قریشی مشاہیر مخدوم شوکت حسین گیلانی ، مخدوم علمدارحسین گیلانی ، مخدوم رحمت حسین گیلانی ، مخدوم حامد رضا گیلانی اورنواب صادق حسین قریشی دکھ سکھ کے موقع پر موضع سنڈھل آتے تھے۔ نشتر کالج کی تعمیر کے موقع پر سنڈھل برادران نے اپنے اور اپنے دوستوں کی طرف سے اپنے وقت کے لحاظ سے 70 ہزار روپے کی خطیر رقم بطور عطیہ دی تھی۔ سید یوسف رضا گیلانی (بعد ازاں وزیراعظم پاکستان) نے میاں مجیب حیدر سنڈھل (ولد الحاج میاں ریاض احمد سنڈھل) کی دعوتِ ولیمہ میں بطور خاص شریک ہوئے تھے۔ الحاج میاں غلام حیدر سنڈھل چار مرتبہ مسلسل یونین کونسل سنڈھل کے چیئر مین منتخب ہوئے تھے۔ان کا تذکرہ میلسی اور وہاڑی پر لکھی گئی مختلف کتب میں موجود ہے میاں ریاض احمد سنڈھل کے دادا میاں غلام نبی سنڈھل تحصیل میلسی کے ذیل دار اور 100 مربع اراضی کے واحد مالک تھے۔ بعد میں یہ منصب انکے بیٹے میاں غلام قادر کو ملا۔ میاں ریاض احمد کی ولادت 1949 میں ہوئی ۔ مسلم ہائی سکول ملتان اور گورنمنٹ ایمرسن کالج ملتان میں زیرتعلیم رہے عملی زندگی میں آنے کے بعد آبائی پیشہ زراعت اختیار کیا اپنے برادران نسبتی میاں محمد ممتاز خان بھابھہ مرحوم (سابق ایم این اے) اور نور محمد خان بھابھہ (سابق دفاقی پارلیمانی سیکرٹری) کے ہمراہ پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے۔4 مرتبہ مسلسل یونین کونسل کے رکن اور 1998 میں ڈسٹرکٹ کونسل وہاڑی کے ممبر منتخب ہوئے۔ ریاض احمد سنڈھل نے ہمیشہ کسان تحریک کی معاونت کی ۔ میاں ریاض احمد سنڈھل سرائیکی صوبے کے پرزور حامی رہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ نئے صوبے کے قیام سے پاکستان کا وفاق مستحکم ہو گا اور سرائیکی وسیب کے لوگوں کی معاشی اور سیاسی محرومیاں ختم ہو نگی ۔میاں ریاض احمد سنڈھل روزنامہ جنگ ملتان ،روزنامہ خبریں ملتان اور روزنامہ نوائے وقت ملتان میں اہم قومی اور زرعی مسائل پر مضامین لکھتے تھے۔ ریاض احمد سنڈھل کے تین بیٹے میاں محمد مجیب حیدر (بی اے ) میاں محمد نجیب حیدر ایڈوکیٹ اور میاں شاہد ریاض ایڈوکیٹ ہیں ۔ میاں ریاض احمد سنڈھل اور انکے تینوں بیٹے زراعت میں بہت مہارت رکھتے ہیں۔ 27 ستمبر2013 کو انہوں نے پی ایس پی کی قائدمحترمہ ڈاکٹرنخبہ تاج لنگاہ کے اعزازمیں موضع سنڈھل میں ایک ظہرانہ دیاجس میں مقامی زمینداروں ،سیاسی کارکنوں اور زندگی کے مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے افرادنے شرکت کی۔ظہرانے میں محمد عمران خان بھابھ ، رانامحمدامیر نون،چودھری نیک محمدگجر،قاضی غوث اقبال،علی عمارڈاہر،زاہدخان شیروانی،ولایت حسین ڈاہراور سید تصورحسین بخاری نمایاں تھے۔31 ؍اکتوبر 2015 کو میاں ریاض احمد سنڈھل کے بھانجے میاں محمدعمران خان بھابھہ یونین کونسل سنڈھل کے بھاری اکثریت سے چیئرمین منتخب ہوئے۔

الحاج ریاض احمد سنڈھل کا دسترخوان بہت وسیع تھا وہ دوستوں اور عزیز اقارب سے کمال شفقت کا مظاہرہ کرتے تھے محبت اور الفت کر رویوں کے باعث انہیں محبت کا سفیر کہنا بہت مناسب ہو گا ان کے بیٹوں میاں مجیب حیدرسنڈھل، میاں نجیب حیدر سنڈھل اور میاں شاہد ریاض سنڈھل نے اعلی اخلاق، مہمان نوازی، امن پسندی اور دوست شناسی کی خوبیاں اپنے عظیم والد سے ورثے میں پائی ہیں۔

الحاج ریاض احمد سنڈھل زندگی بھرمحبت کے زمزمے سناتے رہے اور 8 جولائی 2022 بمطابق 8 ذوالحجہ 1443 ہجری بروز جمعۃ المبارک اس دارفانی سے آٹھ کر محافظ حقیقی سے جا ملے ان کی وفات کسانوں اور وسیب کے لیے بہت بڑا نقصان تھا اللہ تعالی اپنے حبیب کے صدقے ان کی مغفرت فرمائے آمین۔

تحقیق و تحریر : سردار محمد ممتاز خان ڈاہر۔

سید یوسف رضا گیلانی

جدیدملتان کے معمار ،فرزندِاولیاء،اسیرجمہوریت،نقیب ِ سرائیکستان ،سابق وزیر اعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی اپنی امن پسندی،دوست شناسی،انسانی ہمدردی،اپنے مزاج کی شرافت اوراپنے آباکی بے مثال اور غیرمعمولی قومی خدمات کی بدولت معاصرسیاست دانوں میں منفرداور ممتازہیں ۔ تاریخ اور سیاست کا ہر کردارمتنازعہ ہوتا ہے ،اس قانون کا اطلاق سید یوسف رضا گیلانی پر بھی ہوتا ہے چنانچہ پاکستان میں ہر شخص انہیں اپنے اپنے نقطہ نظر سے دیکھتا اور سمجھتا ہے۔مگر ربِ کریم اور صاحب ِالطافِ عمیم کی  خاص عنایت سے اُن کے کریڈٹ پریہ تاریخی حقیقت موجود ہے کہ ان کی وزارتِ عظمیٰ کے دوران پاکستان میں کوئی سیاسی اسیر نہ تھا ۔سیدیوسف رضا گیلانی ریاستی جبراورسیاسی انتقام کا نشانہ بنے مگر انہوں نے کسی سے انتقام نہیں لیا۔پاکستان کا سیاسی ماحول جوالزامات اوردُشنام طرازی سے داغدار ہے وہاں سیدیوسف رضا گیلانی کی گفتگو’’وہ بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں‘‘کی مصداق ہوتی ہے۔خدااِس وجودِ گرامی کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔سیدیوسف رضا گیلانی 9 جون 1952کو عروس البلاد کراچی میں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان اشاعت ِ اسلام، فروغِ علم، امن پسندی اور تحریک پاکستان میں شمولیت کے باعث زمانے میں ممتاز رہا ہے۔ گیلانی حسنی الحسینی سید ہیں۔ سید یوسف رضا گیلانی کے جد امجد سید بندگی محمد غوث حلبی 9 ویں صدی عیسوی میں اشاعت ِ اسلام کی غرض سے شام سے ہجرت کرکے اوچ شریف آئے تھے۔ سید بندگی محمد غوث کا سلسلہ نسب پیر پیران حضرت غوث الاعظم میراں محیی الدین شیخ عبدالقادر جیلانی سے ملتا ہے۔ سید بندگی محمد غوث کی اولاد میں سے ایک بزرگ حضرت سید ابو الحسن جمال الدین معروف بہ حضرت موسیٰ پاک شہید ( وفات 1010ھ ) ملتان میں آسودۂ خاک ہیں۔ آپ کا مزار اندرون پاک دروازہ مرجعِ خلائق ہے۔ سید یوسف رضا گیلانی انہی کی اولاد میں سے ہیں۔ گیلانی اولیاء کے مزارات ملتان کے علاوہ دوسرے شہروں میں بھی ہیں تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ ملتان کا گیلانی خاندان قیام پاکستان سے قبل اشاعت اسلام اور قومی اور سماجی خدمات کی بدولت نہایت قدر و عزت کی نگاہ سے دیکھاجاتا تھا ۔ رئوسائے ملتان، بوسن، کھچی، سندھل، کانجو، سید ، ہراج نون، ڈیہڑوغیرہ ان کے عقیدت مند اوردوست تھے۔ قیام پاکستان سے پہلے گیلانی خاندان اسلامی اور قومی تحریکوں میں پیش پیش رہا۔ گیلانی اسلاف نے تحریک خلافت اور تحریک آزادی میں قائدانہ کردار ادا کیا۔ سید زین العابدین گیلانی اسلام کی سربلندی کے لیے سب کچھ قربان کرنے کا جذبہ رکھتے تھے۔ انہوں نے تحریک خلافت میں حصہ لیا۔ پیر صدر الدین شاہ ( پردادا  یوسف رضاگیلانی ) کے بیٹے محمد رضا گیلانی بھی تحریک خلافت سے بہت متاثر تھے۔ انہیں ترکوں کے حق میں تقریر کرنے اور طلبہ کو منظم کرنے کی پاداش میں کالج سے خارج کردیا گیا تھا۔ مسلمانوں کی جانی دفاع کے لیے سید زین العابدین نے ایک عسکری دستہ منظم کیا تھا جس کی وجہ سے ہندوئوں کو مسلمانوں پر حملے کی جرأت نہ ہوئی تھی۔ اس سیاسی پس منظر کے ساتھ جب گیلانی خاندان نے آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی تو ملتان میں سبز جھنڈے نظر آنے لگے۔ سید زین العابدین گیلانی، سید علمدار حسین گیلانی ( والد سید یوسف رضا ) اور دوسرے گیلانی مشاہیر نے لاہور میں اس تاریخی اجتماع میں شرکت کی جس میں قرار داد پاکستان منظور کی گئی۔ 1940 کے عشرے میں جب ہندوستان کے مسلمان حلقوں میں ہر طرف ’’بن کے رہے گا پاکستان‘‘، ’’لے کے رہیںگے پاکستان‘‘ کے نعرے لگ رہے تھے۔ اس وقت گیلانی خاندان ہی ملتان میں آزادی کا نقیب تھا۔ بانی ٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کو جب ملتان آنے کی دعوت دی گئی تو انہوں نے کہا کہ گیلانی خاندان کے ہوتے ہوئے مجھے ملتان جانے کی ضرورت نہیں اور پھر تاریخ نے گواہی دی کہ قائد اعظم کا ادراک درست تھاانگریز حکومت نے ہندوستان میں قانون ساز اسمبلیوں کے انتخابات کرائے۔ 9 جنوری 1946 کو آل انڈیا مسلم لیگ نے صوبہ سرحد کے سوا ہندوستان کے تمام مسلم اکثریتی صوبوں میں بھاری اکثریت حاصل کی مسلم اقلیت کے صوبوں میں بھی مسلم لیگ نے مسلمان نشستوں پر اکثریت حاصل کی۔ ملتان میں مسلم لیگ نے الیکشن سویپ کیا۔ یہاں سے عام نشستوں پر مسلم لیگ کے تمام امیدوار سید غلام مصطفی شاہ ( دادا سید یوسف رضا گیلانی ) سید مخدوم محمد رضا شاہ گیلانی، نواب اللہ یار خان دولتانہ، ملک محمد اکرم خان بوسن، پیر بڈھن شاہ کھگہ اور سید نوبہار شاہ کامیاب ہوکر پنجاب اسمبلی کے رکن ( MLA ) بنے۔ مزید برآں وہاڑی کے نواب میاں ممتاز محمد خان دولتانہ نارووال ( تب ضلع سیالکوٹ) سے جبکہ جہانیاں کے چودھری ظفر اللہ واہلہ اجنالہ ضلع امرتسر سے MLA منتخب ہوئے۔ نیز سید شیرشاہ گیلانی سنٹرل اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ ان انتخابات کے نتیجے میں پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ گیلانی خاندان کو یہ اعزاز ملا کہ اس خاندان کے دو حقیقی بھائی سیدغلام مصطفی شاہ اور سید محمد رضا شاہ گیلانی MLA منتخب ہوئے ۔ گیلانی خاندان کی انتخابی کامرانیوں کا تذکرہ اس کتاب کے مختلف صفحات پر موجود ہیں۔ قیام پاکستان سے پہلے اور بعد میں انجمن اسلامیہ ملتان کے زیر اہتمام گیلانی خاندان نے ملتان میں سکول اور کالج قائم کئے اور تاریخ نے دیکھا کہ یہ تعلیمی ادارے ایک انقلاب کی بنیاد ثابت ہوئے۔ گیلانی خاندان پاکستان کی ایک مؤثر سیاسی قوت ہے۔ اس کی جڑیں عوام میں بہت گہری ہیں۔ سید یوسف رضا گیلانی نے ابتدائی تعلیم سینٹ میریز کانونٹ ملتان سے حاصل کی اور بعد میں معروف تعلیمی ادارے لاسال ہائی سکول ملتان میں داخل ہوئے۔ سید یوسف رضا گیلانی نے اپنی کتاب چاہِ یوسف سے صدا میں لاسال سکول کی یادوں کو قلمبند کیاہے۔ میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد سید یوسف رضا گیلانی نے ولایت حسین اسلامیہ کالج ملتان میں داخلہ لیا۔ یہ کالج انجمن اسلامیہ ملتان کے کارناموں میں سے ایک ہے۔ یہاں سے سید یوسف رضا گیلانی نے ایف ایس سی ( پری میڈیکل) کا امتحان پاس کیا۔ اور مزید تعلیم کے لیے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوئے۔ جہاں سے انہوں نے بی اے تک تعلیم حاصل کی بعد میں وہ پنجاب یونیورسٹی لاہور کے شعبہ صحافت میں داخل ہوئے۔ 1976 میں سید یوسف رضا گیلانی نے ایم اے صحافت کا امتحان پاس کیا۔ ان کی شادی پیر اسرار شاہ کی دختر سے انجام پائی۔ 9 اگست 1978 کو ان کے والد سید علمدار حسین گیلانی وفات پاگئے۔ سید یوسف رضا گیلانی 1978 میں مسلم لیگ کی سنٹرل کمیٹی کے رکن بنے اور 1982 میں وفاقی مجلس شوریٰ کے رکن نامزد ہوئے۔ 1983 میں ڈسٹرکٹ کونسل ملتان کے رکن منتخب ہوئے اور ایک دلچسپ انتخابی معرکے میں سید فخر امام کو شکست دے کر ڈسٹرکٹ کونسل ملتان کے چیئرمین منتخب ہوئے۔ 1985 کے غیر جماعتی انتخابات میں لودھراں سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 1986 میں وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی کابینہ میں ریلوے کے وزیر مقرر ہوئے۔ 1988 میں پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے۔ اسی سال تاریخی شخصیت میاں نواز شریف کو شکست دے کر ملتان سے پی پی پی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ وہ وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کی کابینہ میں پہلے سیاحت کے اور بعد میں ہائوسنگ و تعمیرات کے وزیر مقرر ہوئے۔ 1990 میں اپنے والد کے کزن اور گیلانی خاندان کی ممتاز ترین شخصیت مخدوم سید حامد رضا گیلانی وغیرہ کو شکست دے کر قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ سید یوسف رضا گیلانی 1993 میں نگران وزیر اعظم میر بلخ شیر مزاری کی کابینہ میں بلدیات و دیہی ترقی کے وزیر مقرر ہوئے ۔ 1993 میں ایک مرتبہ پھر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور بعد ازاں قومی اسمبلی کے سپیکر منتخب ہوئے۔ سید یوسف رضا گیلانی 1997 میں سکندر حیات خان بوسن کے مقابلے میں قومی اسمبلی کا الیکشن ہار گئے۔ 1998 میں سید یوسف رضا گیلانی پاکستان پیپلز پارٹی کے وائس چیئرمین منتخب ہوئے۔ سید یوسف رضا گیلانی مشرف دور میں سیاسی انتقام کا نشانہ بنے اور ایک طویل عرصہ جیل میں رہے۔ وہ 18 فروری 2008 کو پانچویں مرتبہ قومی اسمبلی کے رکن اور بعد ازاں 26مارچ 2008 کو وزیر اعظم پاکستان منتخب ہوئے۔سید یوسف رضا گیلانی نے قومی اسمبلی میں اپنی افتتاحی تقریب میں چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی رہائی کا حکم دیا ۔ 16مارچ 2009کو انہوں نے جسٹس افتخار محمد چودھری کی چیف جسٹس آف پاکستان کے منصب پر بحالی کا تاریخی حکم صادر کیا۔13مارچ2011کو سید یوسف رضا گیلانی نے جلال پور میں ایک جلسۂ عام میں اعلان کیا کہ پاکستان پیپلز پارٹی سرائیکی صوبے کے قیام کو اپنے منشورکا حصہ بنائے گی جس کے بعد سرائیکی صوبہ تحریک کو بہت تقویت ملی۔ سید یوسف رضا گیلانی نے مفاہمت کی سیاست اپنائی جس کی وجہ سے انکی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔ سید یوسف رضا گیلانی کے احکاما ت سے پاکستان او خاص طور پر ملتان میں بہت سے تعمیراتی منصوبے شروع ہوئے ہیں۔ جن میں ملتان تا فیصل آباد موٹروے ہیڈ محمد والا،جلال پور اوچ شریف موسیٰ پاک برج تعمیر ایئر پورٹ ملتان ، ملتان شہر میں سات فلائی اوور،بے نظیر برج چاچڑاں شریف، متعدد پارک اورہسپتال ملک بھر میںآئی ٹی یونیورسٹیوںکا قیام اوردوسرے منصوبے شامل ہیں۔ 6 جنوری 2012ء کو قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ ہم سرائیکی صوبہ بنائیں گے۔ 19 جون 2012ء کوسید یوسف رضا گیلانی ایک متنازعہ عدالتی فیصلے کے باعث وزارتِ عظمیٰ کے منصب سے معزول کردیئے گئے۔

عبدالقادر خان کھچی

عبدالقادر خان کھچی کے والد گل محمد خان کھچی موضع علی واہ تحصیل میلسی میں زرعی زمینوں کے مالک تھے۔ گل محمد
خان کھچی کے والدِ محترم محمود خان کھچی اور دادا محترم احمد خان کھچی تحصیل میلسی کے ذیلدار تھے۔ عبدالقادر خان
کھچی کے چچا دُر محمد خان کھچی چار مرتبہ یونین کونسل علی واہ کے چیئرمین منتخب ہوئے تھے۔ عبدالقادر خان کھچی 15
ستمبر 1955ء کو اپنے آبائی گاؤں علی واہ میں پیدا ہوئے۔ اُنہوں نے میٹرک تک تعلیم گورنمنٹ ہائی سکول میلسی سے حاصل
کی جبکہ ایف اے کا امتحان گورنمنٹ ایمرسن کالج ملتان سے پاس کیا عبدالقادر خان کھچی 1983ء کے بلدیاتی انتخابات میں
یونین کونسل علی واہ کے چیئرمین اور بعد ازاں تین رکنی ضلعی رابطہ کمیٹی وہاڑی کے ممبر منتخب ہوئے۔ عبدالقادر خان
کھچی 1991ء میں ضلع کونسل وہاڑی سے رکن منتخب ہوئے وہ 1998ء میں دوسری مرتبہ ضلع کونسل وہاڑی کے رکن
منتخب ہوئے۔ 2005ء میں عبدالقادر خان کھچی یونین کونسل 4 جہان پور / علی واہ تحصیل میلسی کے ناظم منتخب ہوئے۔
عبدالقادر خان کھچی کے والد اور چچا دِلاور خان کھچی اور محمد ممتاز خان کھچی کے بہت بڑے سپورٹر تھے تاہم عبدالقادر
خان کھچی نے 2013ء میں اپنی سیاسی راہیں بدل لیں اُنہوں نے محمود حیات خان عرف ٹوچی خان، الحاج ریاض احمد سنڈھل
اورمیاں شہزاداحمد سنڈھل کے ہمراہ فریال تالپور سے ملاقات کر کے پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ بعد ازاں سید
یوسف رضا گیلانی، مخدوم شہاب الدین، ملک محمد عامر ڈوگر، حیدر زمان قریشی، اور نوازش پیرزادہ پرمشتمل پارلیمانی بورڈ
نے پی پی پی حلقہ 239 کے لئے انکا ٹکٹ کنفرم کیا۔ عبدالقادر خان کھچی نے 11 مئی 2013ء کے انتخابات میں پی پی پی کے
ٹکٹ پر 14,608 ووٹ حاصل کیے۔

میاں ممتاز محمد خان دولتانہ

تحریک پاکستان کے رہنما میاں ممتاز محمد خان دولتانہ قیام پاکستان کے بعد پنجاب کے پہلے وزیر خزانہ اور بعد ازاں وزیر اعلیٰ بنے وہ وزیر دفاع اور مغربی پاکستان حکومت میں خزانہ ،مواصلات اور تعمیرات کے وزیر بھی رہے ۔میاں ممتاز محمد خان دولتانہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور نہایت ذہین سیاست دان تھے تحریک پاکستان کے دوران وہ قائد اعظم کے ہمراہ رہے اور 1945-46کے تاریخ ساز انتخابات میں کہ جس کے نتیجے میں پاکستان کا قیام عمل میں آیا میاں ممتاز محمد خان دولتانہ نے پنجاب میں مسلم لیگ کی انتخابی مہم کو منظم کیاتھا۔ میاں ممتاز محمد خان دولتانہ نوابانہ شان وشوکت کے ساتھ رہتے تھے اور ملتان ڈویژن کے رئوسا انکی تعلیم اور وسیع زرعی زمین سے بہت متاثر تھے کہتے ہیں کہ وہ پنجاب میں وہ سب سے بڑے زمیندار سیاستدان تھے قول معروف کے مطابق انکے والد نواب احمد یار خان دولتانہ 1500مربع زرعی زمین کے مالک تھے۔میاں ممتاز محمد خان دولتانہ اپنے والد کے اکلوتے بیٹے تھے۔نواب احمد یار خان دولتانہ 1937کے انتخابات میں پنجاب اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے تھے اور بعد میں اسمبلی میں چیف وہپ بنے دولتانہ خاندان کی سخاوت اور فیض بخشیوں کی داستانیں میلسی اور وہاڑی کے قدیم باشندے بیان کرتے ہیں میاں ممتاز محمد خان دولتانہ کے پر دادا میاں غلام محمد خان دولتانہ نے جو زمانہ میںگو گا دولتانہ کے نام سے مشہور ہوئے بے مثال مہمان نوازی کی بدولت شہرت پائی ۔ لڈن میں انکے ڈیرے پر دن رات مہمان اورعام مسافر قیام پذیر رہتے نواب احمد یار دولتانہ نے اس روایت کو قائم رکھا۔میاں ممتاز محمد خان دولتانہ گڑھی شاہولاہور میں سیکڑوں مہمانوں کے ساتھ مل کر کھانا کھاتے تھے مہمان نوازی دنیا کی ہر قوم اور ہر قبیلے کی ایک مستحن روایت ہے تاہم دولتانہ خاندان اس روایت کی پاسداری کی بدولت زمانے میں منفرد رہا ہے قیام پاکستان سے پہلے پنجاب کے اکثر مسلمان زمیندار ہندو ساہو کاروں کے مقروض تھے ۔وہ اپنے قرضہ جات پر سود ادا کرتے عدم ادائیگی کی وجہ سے یہ قرضے پہاڑ کے وزن کے برابر ہوچکے تھے چنانچہ سر سکندر حیات وزیراعظم (وزیراعلیٰ پنجاب )کے زمانے میں نواب احمد یار خان دولتانہ ،سر چھوٹو رام اور دوسرے مشاہیر کی کوششوں سے ایک قانون منظور ہوا ۔جو تاریخ میں Land Alienation And Debt Cancellation act کہلاتاہے اس قانون کے روسے مسلمان زمینداروں کی لاکھوں ایکڑ زرعی زمین بیک جنبش قلم ہندو ساہو کاروں کی رہن سے آزاد ہو گئی۔ نواب احمد یار خان دولتانہ نے مساجد تعمیر کرائیں ۔علم کی اشاعت میں مدد کی اور مختلف فلاحی منصوبوں میں تعاون کرتے رہے انہوں نے 1942میں وفات پائی۔ انکے نامور فرزند میان ممتاز محمد خان دولتانہ 23فروری 1916کو لاہور میں پیدا ہوئے برطانیہ سے بارایٹ لا کی ڈگری حاصل کی اوروطن واپس آکر آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔1943کے ایک ضمنی انتخاب میں وہ مسلم لیگ کے ٹکٹ پر پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے 1944میں میاں ممتاز محمد خان دولتانہ آل انڈیا مسلم لیگ پنجاب کے جنرل سیکرٹری جبکہ انکی اہلیہ بیگم الماس دولتانہ فنانس سیکرٹری منتخب ہوئیں 1945میں ہندوستان کے مسلمان حلقوں میں آل انڈیا مسلم لیگ سر چڑھ کر بولنے والا جادو ثابت ہوئی۔ان انتخابات میں پنجاب اور مسلم اکثریت کے دوسرے صوبوں (ماسوائے سرحد )میں مسلم لیگ نے مسلم نشستوں پر تاریخی کا میابی حاصل کی۔ میاں ممتاز محمد خان دولتانہ نارووال سے پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ اس موقع پر نواب اللہ یار خان دولتانہ میلسی اور وہاڑی مشترکہ نشست سے کامیاب ہوئے ۔ تاہم کانگریس کی مخالفت کی وجہ سے پنجاب میں یونینیسٹ حکومت قائم ہوئی ۔ مسلم لیگ نے پنجاب میں سول نافرمانی کی تحریک چلائی ۔ وزیر اعلیٰ خضر حیات ٹوانہ نے مسلم لیگ پر کریک ڈائون کیا ۔میاں ممتاز محمد خان دولتانہ اور پنجاب میں ہزاروں مسلم لیگی کارکن گرفتار ہوئے قیام پاکستان کے بعد میاں ممتاز محمد خان دولتانہ نواب افتخار ممدوٹ کی کابینہ میں پنجاب کے وزیر خزانہ بنے ۔ وہ 1951تا 1953صوبے کے وزیر اعلیٰ رہے ۔14اکتوبر 1955کو وحدت مغربی پاکستان (ون یونٹ )کا قیام عمل میں آیا ۔ڈاکٹر خان صوبے کے پہلے وزیر اعلیٰ بنے جبکہ میاں ممتاز محمد خان دولتانہ کو خزانہ مواصلات اور تعمیرات کے قلمدان سونپے گئے۔میاں ممتاز محمد خان دولتانہ وزیراعظم ابراہیم اسماعیل حیدری گر کی کابینہ میں وزیر دفاع  مقرر ہوئے ۔ 8 اکتوبر 1958 کو ملک میں مارشل لا کے نفاذ کے بعد میاں ممتاز محمد خان دولتانہ اور دوسرے اہم سیاستدانوں پر سیاسی پابندی عائد کردی گئی میاں ممتاز محمد خان دولتانہ نے محترمہ فاطمہ جناح کی رہنمائی میں انکے مشورے کیساتھ قائد اعظم کے پرانے ساتھیوں کے ساتھ مل کر کونسل مسلم لیگ کی بنیاد رکھی ۔ 1970 کے عام انتخابات میں میاں ممتاز محمد خان دولتانہ اور چھ دوسرے افراد چودھری ظہور الٰہی وغیرہ کونسل مسلم لیگ کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔1973میںمیاں ممتاز محمد خان دولتانہ نے قومی اسمبلی کے نشست سے استعفا دے دیا اور برطانیہ میں پاکستان کے سفیر مقرر ہوئے۔جنرل محمد ضیاالحق کے مارشل لا کے نفاذ کے بعد انہیں اس منصب سے سبکدوش کردیا گیا اور وہ طن واپس آگئے۔میاں ممتاز محمد خان دولتانہ اپنی آخری زندگی میں عملی سیاست سے کنارہ کش  ہوچکے تھے ۔تاہم اخباری بیانات کے ذریعے قومی کی رہنمائی کرتے اور اپنا نقطہ نظر بیان کرتے ۔ میاں ممتاز محمد خان دولتانہ کا 30جون 1995ء کو 79سال کی عمر میں لاہور میں انتقال ہوا۔ ان کا ایک بیٹا میاں جاوید ممتاز دولتانہ اور ایک بیٹی شاہدہ ممتاز ہے۔ میاں جاوید ممتاز دولتانہ1977ء ، 1988ء اور 1993میں صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ شاہدہ ممتاز کی شادی محمد ایوب کھوڑو(سابق وزیرا علیٰ سندھ ) کے بیٹے خالد محمود کھوڑو سے ہوئی شاہدہ ممتاز بے نظیر بھٹو کی گہری دوست تھیں وہ سوشل ایکشن بورڈ وہاڑی کی چیئرمین رہیں ۔انہوں نے 2002کے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کا لیکشن لڑا تاہم کامیاب نہیں ہوئیں ۔ تحریک پاکستان کے رہنما میاںممتاز محمد خان دولتانہ قیام پاکستان کے بعد پنجاب کے پہلے وزیر خزانہ اور بعد ازاں وزیر اعلیٰ بنے وہ وزیر دفاع اور مغربی پاکستان حکومت میں خزانہ ،مواصلات اور تعمیرات کے وزیر بھی رہے ۔میاں ممتاز محمد خان دولتانہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور نہایت ذہین سیاست دان تھے تحریک پاکستان کے دوران وہ قائد اعظم کے ہمراہ رہے اور 1945-46کے تاریخ ساز انتخابات میں کہ جس کے نتیجے میں پاکستان کا قیام عمل میں آیا میاں ممتاز محمد خان دولتانہ نے پنجاب میں مسلم لیگ کی انتخابی مہم کو منظم کیاتھا۔ میاں ممتاز محمد خان دولتانہ نوابانہ شان وشوکت کے ساتھ رہتے تھے اور ملتان ڈویژن کے رئوسا انکی تعلیم اور وسیع زرعی زمین سے بہت متاثر تھے کہتے ہیں کہ وہ پنجاب میں وہ سب سے بڑے زمیندار سیاستدان تھے قول معروف کے مطابق انکے والد نواب احمد یار خان دولتانہ 1500مربع زرعی زمین کے مالک تھے۔میاں ممتاز محمد خان دولتانہ اپنے والد کے اکلوتے بیٹے تھے۔نواب احمد یار خان دولتانہ 1937کے انتخابات میں پنجاب اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے تھے اور بعد میں اسمبلی میں چیف وہپ بنے دولتانہ خاندان کی سخاوت اور فیض بخشیوں کی داستانیں میلسی اور وہاڑی کے قدیم باشندے بیان کرتے ہیں میاں ممتاز محمد خان دولتانہ کے پر دادا میاں غلام محمد خان دولتانہ نے جو زمانہ میںگو گا دولتانہ کے نام سے مشہور ہوئے بے مثال مہمان نوازی کی بدولت شہرت پائی ۔ لڈن میں انکے ڈیرے پر دن رات مہمان اورعام مسافر قیام پذیر رہتے نواب احمد یار دولتانہ نے اس روایت کو قائم رکھا۔میاں ممتاز محمد خان دولتانہ گڑھی شاہولاہور میں سیکڑوں مہمانوں کے ساتھ مل کر کھانا کھاتے تھے مہمان نوازی دنیا کی ہر قوم اور ہر قبیلے کی ایک مستحن روایت ہے تاہم دولتانہ خاندان اس روایت کی پاسداری کی بدولت زمانے میں منفرد رہا ہے قیام پاکستان سے پہلے پنجاب کے اکثر مسلمان زمیندار ہندو ساہو کاروں کے مقروض تھے ۔وہ اپنے قرضہ جات پر سود ادا کرتے عدم ادائیگی کی وجہ سے یہ قرضے پہاڑ کے وزن کے برابر ہوچکے تھے چنانچہ سر سکندر حیات وزیراعظم (وزیراعلیٰ پنجاب )کے زمانے میں نواب احمد یار خان دولتانہ ،سر چھوٹو رام اور دوسرے مشاہیر کی کوششوں سے ایک قانون منظور ہوا ۔جو تاریخ میں Land Alienation And Debt Cancellation act کہلاتاہے اس قانون کے روسے مسلمان زمینداروں کی لاکھوں ایکڑ زرعی زمین بیک جنبش قلم ہندو ساہو کاروں کی رہن سے آزاد ہو گئی۔ نواب احمد یار خان دولتانہ نے مساجد تعمیر کرائیں ۔علم کی اشاعت میں مدد کی اور مختلف فلاحی منصوبوں میں تعاون کرتے رہے انہوں نے 1942میں وفات پائی۔ انکے نامور فرزند میان ممتاز محمد خان دولتانہ 23فروری 1916کو لاہور میں پیدا ہوئے برطانیہ سے بارایٹ لا کی ڈگری حاصل کی اوروطن واپس آکر آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔1943کے ایک ضمنی انتخاب میں وہ مسلم لیگ کے ٹکٹ پر پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے 1944میں میاں ممتاز محمد خان دولتانہ آل انڈیا مسلم لیگ پنجاب کے جنرل سیکرٹری جبکہ انکی اہلیہ بیگم الماس دولتانہ فنانس سیکرٹری منتخب ہوئیں 1945میں ہندوستان کے مسلمان حلقوں میں آل انڈیا مسلم لیگ سر چڑھ کر بولنے والا جادو ثابت ہوئی۔ان انتخابات میں پنجاب اور مسلم اکثریت کے دوسرے صوبوں (ماسوائے سرحد )میں مسلم لیگ نے مسلم نشستوں پر تاریخی کا میابی حاصل کی۔ میاں ممتاز محمد خان دولتانہ نارووال سے پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ اس موقع پر نواب اللہ یار خان دولتانہ میلسی اور وہاڑی مشترکہ نشست سے کامیاب ہوئے ۔ تاہم کانگریس کی مخالفت کی وجہ سے پنجاب میں یونینیسٹ حکومت قائم ہوئی ۔ مسلم لیگ نے پنجاب میں سول نافرمانی کی تحریک چلائی ۔ وزیر اعلیٰ خضر حیات ٹوانہ نے مسلم لیگ پر کریک ڈائون کیا ۔میاں ممتاز محمد خان دولتانہ اور پنجاب میں ہزاروں مسلم لیگی کارکن گرفتار ہوئے قیام پاکستان کے بعد میاں ممتاز محمد خان دولتانہ نواب افتخار ممدوٹ کی کابینہ میں پنجاب کے وزیر خزانہ بنے ۔ وہ 1951تا 1953صوبے کے وزیر اعلیٰ رہے ۔14اکتوبر 1955کو وحدت مغربی پاکستان (ون یونٹ )کا قیام عمل میں آیا ۔ڈاکٹر خان صوبے کے پہلے وزیر اعلیٰ بنے جبکہ میاں ممتاز محمد خان دولتانہ کو خزانہ مواصلات اور تعمیرات کے قلمدان سونپے گئے۔میاں ممتاز محمد خان دولتانہ وزیراعظم ابراہیم اسماعیل حیدری گر کی کابینہ میں وزیر دفاع  مقرر ہوئے ۔ 8 اکتوبر 1958 کو ملک میں مارشل لا کے نفاذ کے بعد میاں ممتاز محمد خان دولتانہ اور دوسرے اہم سیاستدانوں پر سیاسی پابندی عائد کردی گئی میاں ممتاز محمد خان دولتانہ نے محترمہ فاطمہ جناح کی رہنمائی میں انکے مشورے کیساتھ قائد اعظم کے پرانے ساتھیوں کے ساتھ مل کر کونسل مسلم لیگ کی بنیاد رکھی ۔ 1970 کے عام انتخابات میں میاں ممتاز محمد خان دولتانہ اور چھ دوسرے افراد چودھری ظہور الٰہی وغیرہ کونسل مسلم لیگ کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔1973میںمیاں ممتاز محمد خان دولتانہ نے قومی اسمبلی کے نشست سے استعفا دے دیا اور برطانیہ میں پاکستان کے سفیر مقرر ہوئے۔جنرل محمد ضیاالحق کے مارشل لا کے نفاذ کے بعد انہیں اس منصب سے سبکدوش کردیا گیا اور وہ طن واپس آگئے۔میاں ممتاز محمد خان دولتانہ اپنی آخری زندگی میں عملی سیاست سے کنارہ کش  ہوچکے تھے ۔تاہم اخباری بیانات کے ذریعے قومی کی رہنمائی کرتے اور اپنا نقطہ نظر بیان کرتے ۔ میاں ممتاز محمد خان دولتانہ کا 30جون 1995ء کو 79سال کی عمر میں لاہور میں انتقال ہوا۔ ان کا ایک بیٹا میاں جاوید ممتاز دولتانہ اور ایک بیٹی شاہدہ ممتاز ہے۔ میاں جاوید ممتاز دولتانہ1977ء ، 1988ء اور 1993میں صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ شاہدہ ممتاز کی شادی محمد ایوب کھوڑو(سابق وزیرا علیٰ سندھ ) کے بیٹے خالد محمود کھوڑو سے ہوئی شاہدہ ممتاز بے نظیر بھٹو کی گہری دوست تھیں وہ سوشل ایکشن بورڈ وہاڑی کی چیئرمین رہیں ۔انہوں نے 2002کے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کا لیکشن لڑا تاہم کامیاب نہیں ہوئیں ۔

سید محمد رضی شاہ گردیزیسید محمد رضی شاہ گردیزی

گردیزی ملتان کے قدیمی زمیندار ہیں۔ کبیر والا، ملتان، میاں چنوں، لودھراں اور دوسرے مقامات پر ان کی زرعی زمینیں ہیں۔ گردیزی خاندان کے مورثِ اعلیٰ سید ابو الفضل الشیخ جمال الدین معروف بہ شاہ یوسف گردیز گیارہویں صدی عیسوی میں محمود غزنوی کے بیٹے سلیم غزنوی کی دعوت پر پاکتیا( افغانستان ) کے علاقہ سے ملتان آئے تھے۔ یہ خاندان اسی زمانے سے زرعی زمینوں کا مالک ہے۔ شاہ یوسف گردیز نے توحید، رسالت اور امامت کی شمعیں روشن کیں اور دنیا کو امن و اخوت کا پیغام دیا۔ آپ کا مزار اندرون بوہڑ گیٹ ملتان میں صدیوں سے مرجع خلائق ہے۔ گردیزی خاندان کے نامور فرزند سید محمد رضی شاہ گردیزی 1924 میں ملتان میں پیدا ہوئے۔ ان کے پردادا سید غلام رسول شاہ افغانستان میں حکومت برطانیہ کے سفیر تھے۔ سید محمد رضی شاہ کے والد کا نام بھی سید محمد غلام رسول شاہ تھا۔ سید محمد رضی شاہ نے مشہور تعلیمی ادارے گورنمنٹ ایمرسن کالج ملتان سے بی اے تک تعلیم حاصل کی۔ عملی زندگی میں آنے کے بعد آبائی پیشہ زراعت اختیار کیا۔ انہوں نے قومی خدمت کے جذبے سے میانی نصفی میں پہلا گرلز پرائمری سکول قائم کیا۔ سید محمد رضی شاہ نے 1947 کے انقلاب کے موقع پر مہاجرین کی آباد کاری میں ان کی مدد کی تھی۔ انہوں نے ملتان اور لودھراں میں مہاجرین کو عارضی قیام کے لئے مکانات دیے تھے۔ سید محمد رضی شاہ گردیزی ایوب خان کے دور حکومت میں یونین کونسل بنگل والا، ڈسٹرکٹ کونسل ملتان اور ڈویژنل کونسل ملتان کے رکن رہے۔ انہوں نے نواب صادق حسین قریشی ( بعد ازاں وزیر اعلیٰ پنجاب ) کے ہمراہ پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ سید محمد رضی شاہ گردیزی 1970 میں پی پی پی کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 10 مارچ 1977ء کو سید محمد رضی شاہ گردیزی دوبارہ پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 5جولائی 1977 کو مارشل لا کے نفاذ کے موقع پر سید محمد رضی شاہ گردیزی گھر پر نظر بند کردیے گئے۔ انہوں نے  1985 میں مخدوم حامد رضا گیلانی کے مقابلے میں قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا۔ سید محمد رضی شاہ گریزی نے 1986 میں وفات پائی ۔ سید محمد رضی شاہ گردیزی نے قدرت سے ایک بیٹی کی نعمت پائی جن کی شادی سید علی حیدر زمان گردیزی سے ہوئی۔ سید علی حیدر گردیزی نے ایگریکلچر یونیورسٹی فیصل آباد سے 1965میں ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔ سید علی حیدر زمان گردیزی 1987 میں ڈسٹرکٹ کونسل ملتان کے رکن منتخب ہوئے۔1990 میں انہوں نے پی پی پی کے ٹکٹ پر سید یوسف رضا گیلانی ( بعد ازاں وزیر اعظم پاکستان ) کے پینل میں سے ملک سکندر حیات خان بوسن کے مقابلے میں صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑا ۔ سید علی حیدر زمان گردیزی 2 مرتبہ ( 2001 اور 2005 میں ) یونین کونسل 71 ٹاٹے پور کے ناظم منتخب ہوئے۔ انہوں نے اپنے حلقے کی ترقی میں گہری دلچسپی لی۔ جس کی وجہ سے یہاں رابطہ سڑکیں، پختہ کھالہ جات ، بجلی، گیس، پلیں اور دوسرے ترقیاتی منصوبے مکمل ہوئے ، نیز صحت اور تعلیمی ادارے دوبارہ فنکشنل ہوئے ۔

الحاج سیدمحمدعلی مہدی گردیزی الحاج سید محمدعلی مہدی گردیزی

الحاج سیدمحمدعلی مہدی گردیزی کے جد ِ امجد سید یوسف شاہ گردیزیؒ اشاعت ِ اسلام کی غرض سے افغانستان سے ہجرت کر کے ملتان آئے۔یوسف شاہ گردیزؒ نے توحیدو ختم نبوت کے چراغ جلائے اور لوگوں تک اسلام کا پیغام پہنچایا۔آپؒ کا تذکرہ ملتان پر لکھی گئی مختلف کتب میں موجود ہے۔حضرت یوسف شاہ گردیزؒ کا مزار اندرون بوہڑگیٹ ملتان میں ہے جہاں آپ ؒ کے عقیدت مند مزار کی زیارت کے لئے آتے ہیں،آپ کے اخلاف میںسے ایک فرزند الحاج سیدمحمدعلی مہدی گردیزی نے سرائیکی قومی تحریک کی اعانت کی بدولت زمانے میں عزت اور شہرت پائی ہے۔الحاج سیدمحمدعلی مہدی گردیزی کی ولادت 2 نومبر1947 ء کو بڑا گھر یوسف شاہ گردیز ملتان میں ہوئی۔ان کے والد سید نذیر حسین گردیزی ایک امن پسند زمیندار تھے۔تحصیل کبیروالا میں ان کی زرعی زمینیں ہیں۔الحاج سیدمحمدعلی مہدی گردیزی نے گورنمنٹ پائلٹ ہائی سکول ملتان سے مڈل کا امتحان پاس کیا اور مزید تعلیم کے لئے لاہور چلے گئے یہاں انہوں نے فارورڈکالج لاہور سے 1966 ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ملک مختاراحمداعوان کی دعوت پر پاکستان پیپلزپارٹی میں شامل ہوئے ۔ 1970 ء میں انہوں نے ذوالفقارعلی بھٹواور مختار اعوان کی انتخابی مہم میں بھرپور حصہ لیا ۔1977 ء کی تحریک نظا م مصطفی کے دوران پیپلزپارٹی کے ساتھ ثابت قدم رہے۔20 اگست 1977 ء کو پی این اے کے کارکنوں نے ملک مختاراعوان ااور ان کے ساتھیوں پر حملہ کیا ۔الحاج سیدمحمدعلی مہدی گردیزی اس حملے میں زخمی ہوگئے ۔ضیاء الحق کے دورِ جبر میں دوسری جمہوری کارکنوں کے ہمراہ جمہوریت کی بحالی کے لئے جدوجہد کرتے رہے۔ 1984 ء میں انہوں نے بیرسٹرتاج محمدخان لنگاہ کی قیادت میں دوسرے ساتھیوں کے ہمراہ سرائیکی صوبہ محاذ کی بنیاد رکھی اور نئے سیاسی محاذ کی منشور کی اشاعت کے لئے سرگرم ہوئے ۔7 اپریل 1989 ء کو ملتان میں تاج محمدخان لنگاہ کی قیادت میں پاکستان سرائیکی پارٹی کی بنیاد رکھی اور پی۔ایس۔پی ملتان سٹی کے صدر منتخب ہوئے۔بعدازاں وہ پی۔ایس۔پی ملتان ڈویژن کے صدر اور جماعت کے مرکزی رابطہ سیکرٹری رہے۔الحاج سیدمحمدعلی مہدی گردیزی نے پاکستان سرائیکی پارٹی کی تنظیم نو میں گہری دلچسپی لی۔ وہ جماعت کے سالانہ جلسوں اور مختلف اوقات میں سرائیکی قومی حقوق کے مظاہروں میں شریک ہوتے رہے۔1992 ء میں ملتان میں سرائیکی عالمی کانفرنس کے انتظامات میں حصہ لیا۔ستمبر1994 ء کو کراچی میں قوم پرستوں کے سیاسی اتحاد UNA کے کنونشن میں شریک ہوئے ۔1997 ء میں پاکستان سرائیکی پارٹی کے وفد کے ہمراہ ہندوستان گئے یہاں انہوں نے دہلی میں سرائیکی عالمی کانفرنس میں شرکت کی ۔ہندوستان میں ان کی ملاقات کے ۔ایل ۔بھاٹیا ، نرندرکمار،جگدیش چندربترا،کے ۔ایل شرما،سندیا بجاج ،بدھ راج اور بیرسٹرراج کمارسے ہوئی۔ الحاج سیدمحمدعلی مہدی گردیزی نے 1997 ء میں مردم شماری کے مسئلے پر پاکستان سرائیکی پارٹی کی احتجاجی تحریک میں حصہ لیا۔ یکم اور دو اکتوبر1998 ء کو اسلام آباد میں پونم کے تاسیسی اجلاسوں میں شریک ہوئے۔یکم اکتوبر کے اجلاس میں جب اخبارنویسوں نے تاج لنگاہ کے خطاب کے دوران رکاوٹ ڈالی تو سید محمدعلی مہدی گردیزی نے تاج لنگاہ کے حق میں نعرے لگائے اور سرائیکی کاز کے خلاف بات کرنے والے صحافیوں کی سرزنش کی۔ اِس واقعے کو عالمی نشریاتی ادارے بی بی سی لندن نے اپنے اردو سروس میں نشرکیا۔سرائیکی قومی حقوق کی جدوجہد میں انہوں نے کراچی ،حیدرآباد،لاڑکانہ، اسلام آباد،کوئٹہ،زیارت ،ڈیرہ بگٹی،رحیم یار خان،بہاولپور اور دوسرے شہروں کے دورے کئے ۔ سیدمحمدعلی مہدی گردیزی کی مختلف اوقات میں ذوالفقارعلی بھٹو،ممتازعلی بھٹو،جی ۔ایم سید،سید امداد حسین شاہ ، عطاء اﷲخان مینگل، اختر مینگل ، نواب اکبر بگٹی،یوسف رضا گیلانی، سیدمحمدقسور گردیزی،اجمل خٹک،میاں محمد نواز شریف، سجاد حسین قریشی،محمودخان اچکزئی، ڈاکٹر قادر مگسی ، ڈاکٹرکامل بنگش،شاہ محمود قریشی، ڈاکٹرمبشرحسن ،سیدہ عابدہ حسین،رسول بخش پلیجو ، جلال محمود شاہ ، لالہ افضل خان سواتی ، عبداللطیف بھویو ، مولانا عبدالعزیز (صدر سندھ ساگر پارٹی) ، مولانا عبیداللہ بھٹو (صدر جمعیت علماء اسلام سندھ) اور یوسف لغاری سے ملاقات ہوئی۔23 مئی2003 ء کو انہوں نے سرائیکی عوامی پارٹی کی بنیاد رکھی وہ سرائیکی قومی حقوق کے لئے مسلسل جدوجہد کررہے ہیں۔

الحاج محمد نواز خان عرف الحاج محمد نواز خان عرف دلاور خان کھچی

تحصیل میلسی کے مختلف دیہات میں مقیم کھچی خاندان ملتان ڈویژن کی ایک مسلمہ سیاسی قوت ہے ۔ قیام پاکستان کے بعد اس خاندان کے افراد (الحاج محمد یار خان کھچی ، محمد نواز خان عرف دلاور خان کھچی ، آفتاب احمد خان کھچی ۔ الحاج غلام حیدر خان کھچی ، محمد اسلم خان کھچی ، الحاج محمود خان کھچی ، جاوید اقبال خان کھچی ، سردار محمد خان کھچی )نے قومی اور صوبائی اسمبلی کے 18 الیکشن جیتے ہیں۔مزید برآں محمد ممتاز خان کھچی (براد رحقیقی دلاور خان کھچی )4 مرتبہ مسلسل ڈسٹرکٹ کونسل کے چئیرمین اور پانچویں مرتبہ ناظم ضلع وہاڑی منتخب ہوئے۔ اس خاندان کے ایک اور فرزند اللہ یار خان کھچی 6 مرتبہ میونسپل کمیٹی میلسی کے کونسلر اور 4مرتبہ چیئرمین منتخب ہوئے کھچی مشاہر کے حالاتِ زندگی اس کتاب کے مختلف صفحات پر درج ہیں فدا ٹائون میں مقیم کھچی خاندان کی سیاسی تاریخ دلاور خان کھچی کے دادا خان در محمد خان کھچی کے نام سے شروع ہوتی ہے۔در محمد خان کھچی بڑے نام اور اثر والے زمیندار تھے وہ اپنی زندگی میں ڈسٹرکٹ بورڈ ملتان کے وائس چیئرمین رہے ۔درمحمد خان کھچی تحریکِ پاکستان کے رہنمائوں نواب اللہ یار خان دولتانہ اور محمد رضا شاہ گیلانی کے قریبی دوست تھے۔ دولتانہ اور گیلانی خاندان سے کھچی خاندان کی دوستی ایک صدی کا احاطہ کرتی ہے۔ در محمد خان کھچی کے ڈیرے میں نئی عمارت کا سنگ بنیاد پیر صدر الدین شاہ گیلانی نے 1930 کے عشرے میں رکھا تھا ۔ محمدرضا شاہ گیلانی درمحمد خان کھچی اور دوسرے سیاسی مشاہیر کی سیاسی حمایت سے انگریز ڈپٹی کمشنر ای پی مون کے مقابلے میںڈسٹرکٹ بورڈ ملتانکے چیئرمین منتخب ہوئے تھے۔ دُر محمد خان کھچی 1938ء سے 1944ء تک ڈسٹرکٹ بورڈ ملتان کے وائس چیئرمین رہے۔ درمحمد خان کھچی اور انکے عظیم فرزند الحاج محمد یار خان کھچی نے 1945-46 کے انتخابات میں کہ جس کے نتیجے میں پاکستان کا قیام عمل میں آیا میلسی اور وہاڑی سے مسلم لیگی امیدوار نواب اللہ یار خان دولتانہ کے حمایت کر کے انہیں کامیابی سے ہمکنار کیا درمحمد خان کھچی (چیئرمین بحالیات کمیٹی میلسی) نے 1947 کے انقلاب کے موقع پر اجڑے ہوئے مسلمان مہاجرین کی آبادکاری اوریہاں سے غیر مسلموں کے پر امن انخلامیں نہایت قابل تحسین کردار ادا کیا۔ در محمد خان کھچی نے نومبر 1950 میں وفات پائی اور میلسی کے قدیمی قبرستان بابا نتھے شاہ میںپیوندِخاک ہوئے دلاور خان کھچی کی ولادت 1939 میں ہوئی ۔انہوں نے ایف اے تک تعلیم حاصل کی ۔ خاندانی ماحول میں قومی اور سماجی خدمت کا شعورپایا اور اپنے والد الحاج محمد یار خان کے ہمراہ سیاسی خدمات کا آغاز کیا۔ دلاور خان کھچی 1965 میں پہلی مرتبہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ اُس وقت وہ تمام اراکین قومی اسمبلی میں کم عمر تھے۔ دلاور خان کھچی نے کراچی اور اسلام آباد کے علاوہ ڈھاکہ (بنگلہ دیش) میں بھی قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں شرکت کی۔وہ 1966ء سے 1971ء تک یونین کونسل فدہ کے چیئرمین رہے۔  دلاور خان کھچی جب پہلی مرتبہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تو حامد رضا گیلانی اس ایوان کے لیے دوسری مرتبہ منتخب ہوئے تھے۔ حامد رضا گیلانی تاریخی شخصیت ذوالفقار علی بھٹو کے قریبی دوست تھے چنانچہ 1970 حامد رضا گیلانی اور دلاور خان کھچی کا خیال تھا کہ گیلانی گروپ پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم پر الیکشن لڑے۔ اس وقت گیلانی گروپ میں دو آراسامنے آئیں تاہم علمدار حسین گیلانی اور شاہ محمد خان کھچی نے دوستوں کو مسلم لیگ قیوم گروپ کی طرف سے الیکشن لڑنے پر قائل کیا۔ 1977 میں حامد رضا گیلانی اور دلاور خان کھچی دونوں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 1985 کے غیر جماعتی انتخابات میں یوسف رضا گیلانی اور دلاور خان کھچی قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ۔ دلاور خان کھچی 1990 اور 1997 میں بھی قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ انہوں نے 8 مرتبہ قومی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لیا جن میں سے 5 انتخابات میں انہوں نے کامیابی حاصل کی۔ دلاور خان کھچی لوگوں کے مسائل کے حل میں ہمہ وقت مصروف عمل رہے۔ انہوں نے گیلانی خاندان کے ساتھ مل کر ملتان یونیورسٹی کے قیام کے لیے کوشش کی دلاور خان کھچی کے ادوارِاقتدار میں بے شمار ترقیاتی منصوبے مکمل ہوئے۔ انکی مساعیٔ جمیلہ سے نئے سکولوں کا اجرا۔ پرانے سکولوں کی اپ گریڈیشن رابطہ سٹرکوں اور پختہ کھالہ جات کی تعمیر ہوئی متعدد دیہات کو بجلی فراہم کی گئی۔ دیہی مراکز صحت قائم ہوئے اور بے شمار تعلیم یافتہ اور ہنر مند افراد نے ملازمت حاحل کی ۔پوری زندگی دلاور خان کھچی کا کسی سے جھگڑا نہیں ہوا۔ انکے حلقہ ٔ احباب میں جہاں میاں ممتازمحمد خان دولتانہ ۔ حامد رضا گیلانی ، چودھری فضل القادر ، سردار شوکت حیات خان ، نواب افتخار ممدوٹ ، عبدا  لصبورخان ،راجہ تری دیورائے ، مخدوم سجاد حسین قریشی ، سید یوسف رضا گیلانی ، عبدالمنعم خان ، سردار بہادر خان  اے کے بروہی ، شہزادہ محیی الدین ، نواب سر صادق محمد خان غلام مصطفیٰ کھر۔ مخدوم حسن محمود، جام صادق علی ، میاں منظور احمد وٹو، مظفر علی قز لباش، نواب صادق حسین قریشی ، فضل حق، عبدالقیوم خان ، تاج محمد جمالی، ظفر اللہ جمالی، چودھری فضل الٰہی، جام محمد یوسف ، چودھری فضل الہی، میر بلخ شیر مزاری ، غلام مصطفی جتویٔ، حسین شہید سہروردی ، ملک فیروز خان نون، میاں نواز شریف ،سردار فاروق خان لغاری، پیر پگاڑا ، چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی جیسی نامور شخصیات تھیں۔ وہاں علاقے کے غریب لوگ بھی انکے گہرے دوست تھے۔ دلاور خان کھچی نے 16 جولائی 2010 کو لاہور میں 71 سال کی عمر میں وفات پائی۔ انکی نماز جنازہ 17 جولائی 2010 کو فداٹائون میں ادا کی گئی۔ انکے جسد خاکی کو والد الحاج محمد یار خان اور دادا در محمد خان کی قبروں کیساتھ قدیمی قبرستان بابا نتھے شاہ سپرد خاک کیا گیا۔ کوئی دلاور خان کھچی کے سیاسی اصولوں سے لاکھ اختلاف کرے مگر ان کی شراقت پر کسی کو کلام نہیں۔ دلاور خان کھچی اس جہاں سے اُٹھے تو ایک زمانے کی روایت کو بھی اپنے ساتھ لے کر گئے۔ انکی موت ایک سیاسی عہد کا خاتمہ ہے ۔ دلاور خان کھچی کے چار بیٹے ڈاکٹر در محمد خان ، بیرسٹر اورنگ زیب خان جہانزیب خان اور عالمگیر خان ہیں۔ بیرسٹر اورنگ زیب خان جہازیب خان اور عالمگیر خان اپنے آباء کی خدمتِ خلق کی روایت کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ عالمگیر خان نے قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے ایم تاریخ کی ڈگری حاصل کی ۔

محمد جہاں زیب خان کھچی

محمد جہاں زیب خان کھچی کا یہ منفرد اعزاز ہے کہ وہ تین ماہ کی مختصر مدت میں 2 مرتبہ پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ پہلی مرتبہ اُنہوں نے 18 فروری 2013ء کو صوبائی حلقہ 239 سے آزاد اُمیدوار کی حیثیت سے جبکہ دوسری مرتبہ 11 مئی 2013کو پاکستان تحریکِ انصاف کے ٹکٹ پر الیکشن جیتا۔ محمد جہاں زیب خان کھچی، الحاج محمد یار خان کھچی کے پوتے، محمد نواز خان عرف دِلاور خان کھچی کے بیٹے اور محمد ممتاز خان کھچی کے بھتیجے اور محمد اورنگزیب خان کھچی کے بھائی ہیں۔ کھچی مشاہیر کے حالاتِ زندگی اس کتاب کے مختلف صفحات پر درج ہیں۔
کھچی خاندان کا سیاسی اور سماجی اثر قیامِ پاکستان سے قبل قائم ہوچکا تھا۔ محمد جہاں زیب خان کھچی کے پر دادا خان دُر محمد خان کھچی آل اِنڈیا مسلم لیگ تحصیل میلسی کے صدر تھے اُنہوں نے 1934ء میں انگریز ڈپٹی کمشنر ملتان ای پی مون کے مقابلے میں مخدوم محمد رضا شاہ گیلانی کی حمایت کی تھی تب محمد رضا شاہ گیلانی ڈسٹرکٹ بورڈ ملتان کے چیئرمین منتخب ہوئے تھے۔ دُرمحمدخان کھچی 1938 تا 1944ء ڈسٹرکٹ بورڈ ملتان کے چیئرمین رہے۔ کھچی اسلاف نے 1945-46ء کے انتخابات میں مسلم لیگی اُمیدوار نواب اللہ یار خان دولتانہ کی حمایت کر کے اُنہیں کامیابی سے ہمکنار کیا تھا۔ خان دُر محمد خان کھچی اور شاہ محمد خان کھچی نے 1947ء کے انقلاب کے موقع پر ہندوئوں کے پرامن انخلاء اور مسلمان مہاجرین کی آبادکاری میں اپنی سماجی اور اخلاقی اور قومی ذمہ داریاں نبھائیں تھیں جس کی وجہ سے میلسی میں نہ تو ہندو مسلم فسادات ہوئے اور نہ ہی غیر مسلم متروکہ جائیداد کی لوٹ مار ہوئی۔1951 ء میں محمد جہازیب خان کھچی کے دادامحترم الحاج محمدیارخان کھچی پاکستان مسلم لیگ کے ٹکٹ پر ایم ایل اے منتخب ہوئے ۔محمدجہانزیب خان کھچی کے والد محترم محمدنواز خان عرف دِلاور خان کھچی پانچ مرتبہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ۔محمدجہانزیب خان کھچی کے چچا محمدممتاز خان کھچی چارمرتبہ بلامقابلہ ضلع کونسل وہاڑی کے چیئرمین منتخب ہوئے اور2001 تا 2005 ضلع حکومت وہاڑی کے ناظم بھی رہے۔
کھچی خاندان کے نامور فرزند محمد جہاں زیب خان کھچی 7 جنوری 1973ء کو اپنے آبائی قصبے فدا ٹائون تحصیل میلسی میں پیدا ہوئے۔ وہ لاہور کے مشہور تعلیمی ادارے ایچی سن کالج میں زیرِ تعلیم رہے۔ اُنہوں نے 1993ء میں تعلیمی بورڈ لاہور سے ایف اے اور 1997ء میں پنجاب یونیورسٹی سے بی اے کا امتحان پاس کیا۔ محمد جہاں زیب خان کھچی نے عملی زندگی میں آنے کے بعد آبائی پیشہ زراعت اختیار کیا۔ اُنہوں نے گھریلو ماحول میں سیاسی اور قومی خدمت کا شعور پایا۔ محمد جہاں زیب خان کھچی 1998ء میں میونسپل کمیٹی کے رکن منتخب ہوئے جبکہ 2005ء کے بلدیاتی انتخابات میں تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن میلسی کے ناظم کے انتخاب میں فقط ایک ووٹ سے ناکام رہے۔
محمد جہاں زیب خان کھچی اپنے چچا محمد ممتاز خان کھچی اور بھائی محمد اورنگ زیب خان کھچی کے ہمراہ پاکستان تحریکِ انصاف میں شامل ہوئے۔ وہ 18 فروری 2013ء کو صوبائی حلقہ 239کے ضمنی انتخاب میں آزاد اُمیدوار کی حیثیت سے عمران خان کھچی اور توصیف احمد خان یوسفزئی کو شکست دے کر پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ محمدجہانزیب خان نے 35478 ووٹ اور انکے مقابلے میں عمران خان نے 18481 اور توصیف احمد خان نے 15319 ووٹ حاصل کیئے۔
11 مئی 2013ء کو محمد جہاں زیب خان کھچی پاکستان تحریکِ انصاف کے ٹکٹ پر میاں ماجد نواز ارائیں، عبدالقادر خان کھچی، احمد یار اچار والے اور ڈاکٹر نسیم خان کھچی وغیرہ کو شکست دے کر پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ محمد جہاں زیب خان کھچی پنجاب اسمبلی کی مجلسِ قائمہ بابت لٹریسی و نان فارمل بیسک ایجوکیشن کے چیئرمین منتخب ہوئے، محمد جہاں زیب خان کھچی اسمبلی کے اندر اور باہر اپوزیشن کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ 28 جولائی 2014ء کو انکی دعوت پر مخدوم شاہ محمود قریشی فدا ٹائون آئے تھے۔جس میں میلسی ،وہاڑی اور بورے والا سے پی ٹی آئی کے کارکنوں نے کثیرتعدادمیں شرکت کی۔
محمد جہاں زیب خان کھچی پی ٹی آئی کے ملک گیر احتجاجی مظاہروں میں شریک ہوتے رہے ہیں۔ وہ اگست 2014ء کو پی ٹی آئی کے تاریخی لانگ مارچ میں شریک ہوئے۔ علاوہ ازیں محمد جہاں زیب خان کھچی اور محمد اورنگ زیب خان کھچی بڑے جلوسوں کے ہمراہ 27 جون 2014ء کو بہاولپور اور 10 اکتوبر 2014ء کو ملتان گئے جہاں اُنہوں نے پی ٹی آئی کے قائد عمران خان کے جلسوں میں شرکت کی۔ 5 فروری 2015ء کو مخدوم شاہ محمود قریشی اور پی ٹی آئی کے دوسرے قائدین محمد ممتاز خان کھچی کی مزاج پرسی کیلئے فدا ٹائون آئے۔

الحاج میاں ریاض احمد سنڈھل الحاج میاں ریاض احمد سنڈھل

ماہر زراعت الحاج ریاض احمد سنڈھل بالیقین کسانوں کے سچے دوست ہیں۔ وہ ملتان ڈویژن سے تعلق رکھنے والے پہلے زمیندار ہیں۔ جنہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ نہری پانی کے مسئلے کو کشمیر ایجنڈے میں شامل کیا جائے۔ کسانوں کے مسائل پر ملتان ڈویژن میں سب سے پہلے الحاج ریاض احمد سنڈھل ہی آواز بلند کرتے ہیں۔ وہ اخبارات کے ذریعے کسانوں کے مسائل کی نشاندہی کرتے اور انکے حل کے لیے قابلِ عمل تجاویز پیش کرتے ہیں۔ نہری پانی کی منصفانہ تقسیم اور زرعی اجناس کے معقول نرخوں پر فروخت کے لیے جدوجہد کرنا ان کی زندگی کے دو اہم مقاصد ہیں۔وہ سمجھتے ہیںکہ 19 ستمبر1960 ء کا سندھ طاس معاہدہ کسانوں کی موت کا پروانہ تھا جس کی وجہ سے جنوبی پنجاب میں 15 لاکھ ایکڑاراضی بنجر ہوگئی۔ الحاج میاں ریاض احمد سنڈھل کے والد الحاج میاں غلام حیدر سنڈھل اور چچا میاں غلام قادر سنڈھل تحریک پاکستان کے کارکن تھے۔ مسلم لیگ میں شمولیت کے موقع پر قائداعظم نے خود میاں غلام قادر سنڈھل کارکنیت فارم پر کیا تھا۔ سنڈھل قدیمی زمیندار ہیں۔تحصیل میلسی میں انکی زرعی زمینیں ہیں ملتان کے گیلانی اور قریشی خاندان کے ساتھ سنڈھل خاندان کے دوستی ایک سو سال کا احاطہ کرتی ہے۔ گیلانی اور قریشی مشاہیر مخدوم شوکت حسین گیلانی ، مخدوم علمدارحسین گیلانی ، مخدوم رحمت حسین گیلانی ، مخدوم حامد رضا گیلانی اورنواب صادق حسین قریشی دکھ سکھ کے موقع پر موضع سنڈھل آتے تھے۔ نشتر کالج کی تعمیر کے موقع پر سنڈھل برادران نے اپنے اور اپنے دوستوں کی طرف سے اپنے وقت کے لحاظ سے 70 ہزار روپے کی خطیر رقم بطور عطیہ دی تھی۔ سید یوسف رضا گیلانی (بعد ازاں وزیراعظم پاکستان) نے میاں مجیب حیدر سنڈھل (ولد الحاج میاں ریاض احمد سنڈھل) کی دعوتِ ولیمہ میں بطور خاص شریک ہوئے تھے۔  الحاج میاں غلام حیدر سنڈھل چار مرتبہ مسلسل یونین کونسل سنڈھل کے چیئر مین منتخب ہوئے تھے۔ان کا تذکرہ میلسی اور وہاڑی پر لکھی گئی مختلف کتب میں موجود ہے میاں ریاض احمد سنڈھل کے دادا میاں غلام نبی سنڈھل تحصیل میلسی کے ذیل دار اور 100 مربع اراضی کے واحد مالک تھے۔ بعد میں یہ منصب انکے بیٹے میاں غلام قادر کو ملا۔ میاں ریاض احمد کی ولادت 1949 میں ہوئی ۔ مسلم ہائی سکول ملتان اور گورنمنٹ ایمرسن کالج ملتان میں زیرتعلیم رہے عملی زندگی میں آنے کے بعد آبائی پیشہ زراعت اختیار کیا اپنے برادران نسبتی میاں محمد ممتاز خان بھابھہ مرحوم (سابق ایم این اے) اور نور محمد خان بھابھہ (سابق دفاقی پارلیمانی سیکرٹری) کے ہمراہ پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے۔4 مرتبہ مسلسل یونین کونسل کے رکن اور 1998 میں ڈسٹرکٹ کونسل وہاڑی کے ممبر منتخب ہوئے۔ ریاض احمد سنڈھل نے ہمیشہ کسان تحریک کی معاونت کی ہے۔ میاںریاض احمد سنڈھل سرائیکی صوبے کے پرزور حامی ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ نئے صوبے کے قیام سے پاکستان کا دفاق مستحکم ہو گا اور جنوبی پنجاب کے لوگوں کی معاشی اور سیاسی محرومیاں ختم ہو نگی ۔میاں ریاض احمد سنڈھل روزنامہ جنگ ملتان ،روزنامہ خبریں ملتان اور روزنامہ نوائے وقت ملتان میں اہم قومی اور زرعی مسائل پر مضامین لکھتے ہیں۔ ریاض احمد سنڈھل کے تین بیٹے میاں محمد مجیب حیدر (بی اے ) میاں محمد نجیب حیدر ایڈوکیٹ اور میاں شاہد ریاض ایڈوکیٹ ہیں ۔ میاں ریاض احمد سنڈھل اور انکے تینوں بیٹے زراعت میں بہت مہارت سکتے ہیں۔  27 ستمبر2013 کو انہوں نے پی ایس پی کی قائدمحترمہ ڈاکٹرنخبہ تاج لنگاہ کے اعزازمیں موضع سنڈھل میں ایک ظہرانہ دیاجسمیں مقامی زمینداروں ،سیاسی کارکنوںاورزندگی کے مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے افرادنے شرکت کی۔ظہرانے میں میاں عمران خان بھابھہ،مصنف، رانامحمدامیر نون،چودھری نیک محمدگجر،قاضی غوث اقبال،علی عمارڈاہر،زاہدخان شیروانی،ولایت حسین ڈاہراور سید تصورحسین بخاری نمایاں تھے۔31 ؍اکتوبر 2015 کو میاں ریاض احمد سنڈھل کے بھانجے میاں محمدعمران خان بھابھہ یونین کونسل سنڈھل کے بھاری اکثریت سے چیئرمین منتخب ہوئے۔

میاں محمد ممتاز خان بھابھہ میاں محمد ممتاز خان بھابھہ

سابق رکن قومی اسمبلی میاں محمد ممتاز خان بھابھہ 1949 میں میلسی کے نواحی گائوں ملکو میں ایک بڑے زمیندارگھرانے میں پیدا ہوئے انکے والد میاں غلام محمد خان بھابھہ تحریک پاکستان کے رہنمائوں میاں ممتاز محمد خان دولتانہ ، نواب افتخار احمد محدوٹ اور نواب اللہ یار خان دولتانہ کے قریبی دوست تھے۔ غلام محمد خان بھابھہ اپنے باپ کے اکلوتے بیٹے اور 2900 ایکٹر زرعی اراضی کے واحد مالک تھے۔ ممتاز خان بھابھہ نے میٹرک کا امتحان سکول میں امتیازی پوزیشن کے ساتھ پاس کیا اور بی اے کے لیے لاہور میں زیرِ تعلیم رہے۔ 1970 میں انکے بڑے بھائی محمدمشتاق خان بھابھہ نے احمد خان کھچی کے پینل میں میلسی سے کونسل مسلم لیگ کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑا ۔ انہوں نے اپنے بھائی کے انتخابی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس طرح وہ نوجوانی میں میدانِ سیاست میں آگئے ممتاز خان بھابھہ 1983 میں آفتاب احمد خان کھچی (شتاب گڑھ )کے مقابلے میں ڈسٹرکٹ کونسل وہاڑی کے رکن منتخب ہوئے۔ ممتاز خان بھابھہ نے عوامی رابطوں کو بڑھایا اور لوگوں کے دکھ سکھ میں شریک ہونے لگے ۔ 1985 کے غیر جماعتی انتخابات میں ممتاز خان بھابھہ نے دلاور خان کھچی کے مقابلے میں میلسی سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا جس میں انہوں نے 54653 ووٹ حاصل کیے ۔ یہ انتخاب انکی آئندہ سیاسی قوت کی بنیاد بنا۔ ممتاز خان بھابھہ اپنے بھائی نور محمد خان بھابھہ اور بہنوئی الحاج ریاض احمد سنڈھل کے مشورے سے پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے۔ 10 اپریل 1986 کو شہید نے نظر بھٹو کی وطن واپسی کے موقع پر انہوں نے لاہور میں انکے استقبالی جلوس میں شرکت کی ۔ بہت جلد وہ پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے نہایت اعتماد یافتہ حلقے میں آگئے ۔ ممتاز خان بھابھہ 1988 میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر دلاور خان کھچی کے مقابلے میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ۔ انہیں پیپلز ورکس پروگرام وہاڑی کا ایڈمنسٹریڑ مقرر کیا گیا۔ اس منصب کے بدولت انہوں نے ضلع میں متعدد ترقیاتی منصوبے مکمل کیے ۔ 1989 میں منتخب جمہوری وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد لائی گئی ۔ اس موقع پر مخالف سیاسی رہنمائوں نے انہیں وفادار ی بدلنے کے عوض بھاری مراعات کی پیش کش کی ۔ مگر انہوں نے یہ مراعات اپنے ضمیر کی آواز پر مسترد کر دیں ۔ 1992 کے لانگ مارچ میں ممتاز خان بھابھہ نے بھرپور حصہ لیا 1993 میں انکے بھائی نور محمد خان بھابھہ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ۔ (نور محمد خان بھابھہ کے حالاتِ زندگی اس کتاب کے ایک دوسرے صفحے پر درج ہیں) ممتاز خان بھابھہ ایک صاف دل انسان تھے ۔ وہ پنچائتی انصاف کے ذریعے لوگوں کے جھگڑے ختم کرتے اور ان میں صلح کراتے تھے۔ ممتاز خان بھابھہ اور انکا خاندان فلاحی منصوبوں میں بھرپور دلچسپی لیتے ہیں۔ بھابھہ خاندان نے لڑکے اور لڑکیوں کے سکولوں اور ہسپتال کے لیے قطعات اراضی وقف کیے ہیں ۔ ممتاز خان بھابھہ 2ستمبر 2002 کو اچانک حرکتِ قلب بند جانے سے وفات پاگئے۔ انکی چار بیٹیاں اور ایک بیٹا محمد عمران خان بھابھہ ہے۔عمران خان بھابھہ 17 مارچ 1882 کو ملتان میں پیدا ہوئے ،انہوں نے معروف تعلیمی اداروں بیکن ہاؤس سکول اور ایف سی کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی۔اپنے والد اور چچا نورمحمدخان بھابھہ کی انتخابی مہمات میں شریک رہے۔31 ؍ اکتوبر 2015 ء کو بھاری اکثریت سے یونین کونسل سنڈھل کے چیئرمین منتخب ہوئے۔ محمد عمران خان بھابھہ اپنے کھرے لین دین اور پابندیٔ صوم صلوٰۃ کے لحاظ سے رئو سائے وہاڑی میں ممتاز ہیں۔  ممتاز بھابھہ کا گھر سیاسی سرگرمیوں کا مرکزتھا ۔مختلف اوقات میں یہاں بینظیربھٹو، سید یوسف رضا گیلانی،سیدخورشیداحمد شاہ،فیصل صالح حیات،غلام مصطفی کھر،مخدوم شاہ محمودقریشی،بیگم نصرت بھٹو اور دیگر مشاہیرسیاست آتے رہے۔

نور محمد خان بھابھہ نور محمد خان بھابھہ

سابق وفاقی پارلیمانی سیکرٹری نور محمد خان بھابھہ کے والد غلام محمد خان بھابھہ تحریک پاکستان کے رہنما نواب اللہ یار خان دولتانہ اور نواب افتخار ممدوٹ (بعدا زاں وزیر اعلیٰ پنجاب ) کے قریبی دوست تھے ۔ وہ اپنے والد کے اکلوتے بیٹے اور موضع ملکو تحصیل میلسی میں 2900 ایکڑ زرعی زمین کے  واحد مالک تھے ۔انکا شمار رئوسائے ملتان میں ہوتا تھانور محمد خان بھابھہ 21دسمبر 1951کو اپنے آبائی گائوں ملکو میں پیدا ہوئے 1972میں ایف سی کالج لاہورسے بی اے اور 1975میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم اے تاریخ کا امتحان پاس کیا۔عملی زندگی میں آکر آبائی پیشہ زراعت اختیار کیا۔نورمحمد خان بھابھہ ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت اور انکے نظریات سے بہت متاثر ہوئے انہوں نے پی پی پی کا پرچم اٹھایا اور ملک میں معاشی و سماجی ناانصافی اور غربت کے خاتمے اور جمہوریت کے قیام کے لیے مصروف عمل ہوئے ۔یہ مارشل لا کا زمانہ تھا اور سیاسی آزادیوں پر قدغن لگی ہوئی تھی مارشل لا کے خاتمے کے بعد شہید بے نظیر بھٹو جب 10اپریل 1986کو جلاوطنی کی زندگی ختم کرکے وطن واپس آئیں تو وہ اپنے بھائی محمد ممتاز خان بھابھہ بہنوئی میاںریاض احمد سنڈھل بھتیجوں کا شف مشتاق خان، یاسر مشتاق خان بھانجوں میاں مجیب حیدر سنڈھل ۔میاں نجیب حیدر سنڈھل اور خاندان کے دوسرے افراد اور دوستوں کے ہمراہ انکے استقبال کے لیے لاہور پہنچے ۔ 1988کے عام انتخابات میں نور محمد خان بھابھہ کے بڑے بھائی محمد ممتاز خان بھابھہ پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر دلاور خان کھچی کے مقابلے میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ۔1993میں نور محمد خان بھابھہ دلاور خان کھچی اور میاں فیض محمد ارائیں کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ۔نور محمد خان بھابھہ کا شمار پی پی کے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد میں ہوتاتھا۔انہوں نے انگریزی زبان میں ’’معاشیات کی تعمیر نو ‘‘ کے عنوان سے ایک مقالہ لکھا جسے وقت کی وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے بہت پسند کیا ۔ انہوں نے نور خان بھابھہ کے علم کی قدر کرتے ہوئے انہیں وفاقی پارلیمانی سیکرٹری خوراک زراعت ولائیو سٹاک کا قلم دان سونپ دیا۔ قومی اسمبلی کا رکن بن کر نور محمد خان بھابھہ نے قومی مسائل کے حل میںگہری دلچسپی لی انہوں نے اقوام متحدہ ،امریکہ ،جاپان ، مراکش ،جرمنی اور جنوبی افریقہ میں پاکستانی وفود کی قیادت کی۔ نور محمد خان بھابھہ نے اپنے حلقہ نیابت میں متعدد دیہات کو بجلی فراہم کی۔ میلسی،ٹبہ سلطان پوراور سردار پور جھنڈیر کے ٹیلی فون ایکسچینج کو Digitise کیا ۔ متعدد مقامات پر نئے ڈیجیٹل ٹیلی فون ایکسچینج اور پبلک کال آفس قائم کیے گئے ۔انہوں نے بنک او جی ڈی سی اور پی ٹی سی ایل میں بے روزگار تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ملازمتیں دلوائیں ۔نورمحمدخان بھابھہ 2003 تا 2006 پاکستان پیپلزپارٹی کے ضلعی صدررہے۔نور محمد خان بھابھہ ایک نظریاتی سیا سی رہنما اور شریف انسان ہیں ۔ وہ جدید زراعت کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں 2009میں نور خان بھابھہ ایگریکلچرل ریسرچ سنٹر کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے،2011 میں انہوں نے پاکستان پیپلزپارٹی سے علیحدہ ہوگئے اور پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہوئے۔6 جون 2011 کو PTI کسان ونگ کے صدرمقرر ہوئے۔  11 مارچ2013 کو ایک انتخابی عمل کے ذریعے پاکستان تحریک انصاف جنوبی پنجاب کے صدر منتخب ہوئے۔انہوں نے پاکستان تحریک انصاف کی تنظیم سازی اور جماعت کی مقبولیت کے لئے انتھک محنت کی ہے۔ان کی دعوت پر علی رضا دریشک ،احمد علی خان دریشک ،میاں امتیاز متیانہ سمیت جنوبی پنجاب کے کثیرتعدادمیں ممتازاور سیاسی طور پر مؤثر شخصیات نے PTI میں شمولیت اختیارکی۔وہ ملتان،بہاولپور،رحیم یارخان ،لاہور اسلام آباداور دوسرے مقامات پر PTI کے جلسوں اور مظاہروں میں شریک ہوتے رہے ہیں۔ 31 ؍اکتوبر2015 کو ان کے بھتیجے اور دامادمیاں محمدعمران خان بھابھہ بھاری اکثریت سے یونین کونسل سنڈھل کے چیئرمین منتخب ہوئے۔

  چوہدری ریاض احمد گھلوی

چیرمین یونین کونسل لالی پور تحصیل میلسی ضلع وہاڑی ، چوہدری ریاض احمد جٹ برولہ نومبر 1957میں ایک زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئے۔انکے والد چوہدری شیر محمد جٹ برولہ کا تحصیل میلسی میں بڑا نام اور وقار تھا۔ وہ تحصیل میلسی کے مختلف دیہات میں زرعی زمینوں کے مالک تھے۔چوہد ری شیر محمد 1947کے انقلاب کے بعد ضلع جالندھر کی تحصیل  نواں شہر   سے ہجرت کرکے پاکستان آئے تھے۔ وہ کچھ عرصہ مو ضع گھلو تحصیل میلسی میں قیام پذیر رہے جسکی وجہ سے وہ زمانے میں چوہدری شیر محمد گھلوی کے نام سے متعارف ہوئے اور بعد میں انکی اولاد بھی گھلوی کہلائی۔ چوہدری شیر محمد گھلوی نے تحصیل میلسی میں مسلمان مہاجرین خاص طور پر جٹ برادری کی آبادکاری میں بھرپور حصہ لیا۔جسکی وجہ سے انہیں بہت عزت اور شہرت ملی۔چوہدری شیر محمد گھلوی نے 1951میں مسلم لیگ کے ٹکٹ پر تحصیل میلسی سے مہاجرخاص  نشست پر پنجاب اسمبلی کا الیکشن لڑاتھا۔ 1952میں انہوں نے دوکوٹہ میں ہائی سکول قائم کیا اور سکول کے لیے ۴ ایکڑ اراضی کا عطیہ دیا۔چویدری شیر محمد گھلوی کی علم دوستی نے انہیں بہت عزت بخشی۔چوہدری شیر محمد گھلوی 1979میں معروف زمیندار میاں ممتاز خان بھابھ (بعد ازاں ایم۔این۔اے) کے مقابلے ڈسٹرکٹ کونسل وہاڑی کے رکن منتخب ہوئے۔ گھلوں خاندان علمائے تشیع کی خدمت  کے حوالے سے میلسی میں ممتاز مقام رکھتا ہے۔ وقت کے ممتاز علماء مولانا ساجد علی نقوی،علامہ تقی نقوی اور دیگر شیع علماء انکی دعوت پر کوٹ شیر محمد گھلوی آتے رہے ہیں۔موجودہ زمانے میں گھلوی خاندان تحصیل میلسی کے سیاسی منظر نامے پر بہت نمایاں ہے۔چوہدری ریاض احمد گھلو نے گورئمنٹ ہائی سکول دوکوٹہ سے میٹرک اور گورئمنٹ ولایت حسین اسلامیہ ڈگری کالج ملتان سے ایف۔اے کا امتحان پاس کیا۔عملی زندگی میں آنے کے بعد انہوں نے آبائی پیشہ زراعت اختیار کیا۔1987-88میں  چوہدری ریاض احمد گھلوی یونین کونسل لالی پور   کے چیرمین منتخب ہوئے  اور انکے بڑے بھائی چوہدری ارشاد احمد گھلوی ڈسٹرکٹ کونسل وہاڑی کے رکن منتخب ہوئے۔1991-92میں ایک مرتبہ پھر چوہدری ریاض احمد گھلوی یونین کونسل لالی پور کے چیرمین اور چوہدری ارشاد احمد گھلوی ڈسٹرکٹ کونسل وہاڑی کے رکن ہوئے۔1998میں چوہدری ریاض احمد گھلوی ڈسٹرکٹ کونسل وہاڑی کے رکن منتخب ہوئے۔2001 میں چوہدری ریاض احمد گھلوی یونین کونسل کے ناظم منتخب ہوئے اور چار سال اسی عہدے پر فائز رہے۔31ّ۔اکتوبر 2015کو چوہدری ریاض احمد گھلوی یونین کونسل لالی پورکے چیرمین منتخب ہوئے۔اسی روز انکے بھتیجے چوہدری قیصر عباس گھلوی یونین کونسل لال سگو کے چیرمین منتخب ہوئے۔چوہدری ریاض احمد گھلوی کا عوامی رابطہ بہت  وسیع ہے ۔ وہ  اپنے ڈیرے پر بیٹھ کر لوگوں کے مسائل سنتے ہیں اور انکے حل کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے  ہیں

میاں غوث اقبال قاضی

 میاں غوث اقبال قاضی ایڈوکیٹ کے آباء تحصیل کبیر والا کے گاؤں کوٹ بٹہ سے نقل مکانی کر کے میلسی آئے تھے۔غوث اقبال قاضی کے پر دادا قاضی عطا محمد کا میلسی شہر میں بڑا وقار تھا۔اُنہوں نے قرآن مجید کے قلمی نسخے مرتب کیے تھے۔ قاضی غوث اقبال کے دادا قاضی نور محمد اور قاضی نور محمد کے بھائی قاضی غوث محمد میلسی میں عید کی نماز پڑ ھاتے تھے۔ اُس زمانے میں مسلمانوں کے تمام فرقے قا ضی برادران کی اقتدامیں عید گاہ میلسی میں ایک ہی مقام پر نمازِ عید  پڑ ھتے تھے اور مختلف مسالک کے مسلمانوں کا شہر میں علیحدہ علیحدہ نمازِ عید پڑھنے کا رواج نہ تھا۔ قاضی نور محمد اور دوسرے مسلمانوں نے نواب احمد یار خان دولتانہ کے ساتھ مل کر تاریخی مسجد تحصیل والی کو ازسر نو تعمیر کرایا تھا۔قاضی نور محمد تحریک پاکستان کے رہنما مخدوم سید محمد رضا شاہ گیلانی کے قریبی دوست تھے۔ اُنہوں نے قیام پاکستان کے وقت میلسی شہر سے ہندوؤں کے پُر امن انخلا اور یہاں مہاجر مسلمانوں کی آباد کاری میں حصہ لیا تھاجس کی وجہ سے قاضی نور محمد کے وقار میں بہت اضافہ ہوا۔ مہاجر مسلمان قاضی نور محمد اور اُن کے بیٹے قاضی محمد اقبال کا بہت لحاظ کر تے تھے۔ قاضی محمد اقبال (والد میاں غوث اقبال)ایک امن پسند اور صلح جو زمیندار تھے۔ وہ پنجائتی انصاف کے ذریعے لوگوں کے جھگڑے ختم کراتے اور اُن میں صلح کراتے۔ قاضی محمد اقبال کی امن پسندی کی وجہ سے اُنہیں زمانے میں بہت عزت ملی وہ ضیاء الحق کے دور حکومت میں زکوۃ عشر کمیٹی کے چیر مین مقرر ہوئے اور 1998میں میونسپل کمیٹی میلسی کے رکن منتخب  ہوئے۔ قاضی محمد اقبال عزت و احترام کی زندگی گزارنے کے بعد 23جنوری 2003کو وفات پا گئے۔ قاضی غوث اقبال 13اپریل 1972کو اپنے آبائی شہر میلسی میں پیدا ہوئے۔ اُنہوں نے میٹرک تک تعلیم ایف۔ جی ہائی سکول میلسی سے حاصل کی جبکہ بی اے کا امتحان بطور پرائیوٹ طالب علم پنجاب یونیورسٹی لاہور سے پاس کیا۔ قاضی غوث اقبال نے ملتان لا کالج سے قانون کی تعلیم حاصل کی اور بہاء الدین زکریا یونیوسٹی ملتان سے ایل۔ ایل۔ بی کی ڈگری حاصل کی۔ اُنہوں نے معروف قانون دان زاہد خان کھچی کی رہنمائی  میں وکالت کا آغاز کیا اور اس کے ساتھ ساتھ میلسی میں جائیداد کی خریدوفروخت کے کاروبار  سے وابستہ ہوئے۔ قاضی غوث اقبال کسان رہنما اور سماجی کارکن کے طور پر میلسی کے سیاسی منظر نامے پر نمایاں ہوئے انہوں نے پھٹی کے کاشتکاروں اور زرعی مسائل کے حل لیے آواز بلند کی جس کی وجہ سے انہیں بہت مقبولیت ملی۔قاضی غوث اقبال سرائیکی صوبے کے پُر زور حامی ہیں 27ستمبر 2013کو پاکستان سرائیکی پارٹی کی قائد محترمہ نخبہ تاج لنگاہ قاضی غوث اقبال کی دعوت پر ان کے گھر آئی تھیں۔ قاضی غوث اقبال نے امن پسندی اور حسن اخلاق کی خوبیاں اپنے والد محمد اقبال قاضی سے ورثے میں پائی ہیں۔ اُنکے بڑے بھائی میاں نسیم محمود اپنے ڈیرے پر بیٹھ کر لوگوں کے مسائل سنتے ہیں اور انکے حل کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔قاضی غوث اقبال کے بھائی میاں سلیم اقبال قاضی آئندہ انتخابات میں صوبائی حلقہ پی پی 239سے الیکشن لڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ 

جہانگیر احمد خان یوسف زئی

چیرمین ٹاؤن کمیٹی  جلہ جیم جہانگیر احمد خان یوسف زئی  سابق رکن قومی اسمبلی ارشاد احمد خان یوسف زئی کے بیٹے اور سابق رکن قومی اسمبلی محمود حیات خان عرف ٹوچی خان کے بھائی ہیں۔یوسف زئی اسلاف قیام پاکستان کے بعد ہندوستان کے ضلع کرنال سے ہجرت کرکے پاکستان آئے تھے۔جہانگیر احمد خان یوسف زئی کے دادا جنگ باز خان یوسف زئی  ایک بڑے زمیندار اورہندوستان میں چھ ہزار ایکڑ زرعی اراضی کے مالک تھے۔پاکستان آنے کے بعد اُنہیں تحصیل میلسی کے دیہات جلہ جیم میلسی چت واہن  مکل اور بوہڑ میں زرعی اراضی الاٹ کی گئی۔یوسف زئی خاندان کے افراد قومی و صوبائی اسمبلی رکن  ، میو نسپل کمیٹی میلسی کے چیر مین اور کچھ دوسرے سیاسی عہدوں پر فائز رہے ہیں۔جہانگیر احمد خان یوسف زئی 1963جلہ جیم میں پیدا ہوئے انہوں نے 1979میں گورئمنٹ ہائی سکول جلہ جیم سے میٹرک اور 1982میں صادق ایجرٹن کالج بہاولپور سے ایف۔ایس۔سی کا امتحان پاس کیا۔جہانگیر احمد خان یوسف زئی تقریباً2سال گورنمنٹ  ایمرسن کالج بوسن روڈ ملتان میں زر تعلیم رہے جہاں سے انہوں نے  بی۔ا ے  تک تعلیم حاصل کی جہانگیر احمد خان یوسف زئی نے تعلیمی سفر جاری رکھا۔انہوں نے 1985-87میں پنجاب یونیورسٹی لاہور زیرے تعلیم رہے جہاں سے انہوں نے ایم۔ایس سی (نفسیات)کا امتحان پاس کیا اور 1987-89میں بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے ماسٹر آف بزنس ایڈمنسٹریشن کا امتحان پاس کیا وہ گیلانی لاء کالج ملتان میں داخل ہوئے اور 1993میں انہوں نے ایل۔ایل۔بی کا امتحان پاس کیا۔جہانگیر احمد خان یوسف زئی نے زمانہ ء طالب علمی میں قومی اور سیاسی شعور  نیشنل سٹودنٹ فیڈریشن میں شامل ہو کر حاصل کیا جہانگیر احمد خان یوسف زئی مارشل لاء کے خاتمے اور جمہوریت کی بحالی کے لیے سر گرم رہے۔وہ 1987 تا1989پیپلز سٹوڈنٹ فیڈریشن زکریا یونیورسٹی ملتان کے صدر رہے۔ جہانگیر احمد خان یوسف زئی یوتھ آرگنائزیشن ملتان ڈویژن کے جنرل سیکرٹری  مقرر ہوئے۔جہانگیر احمد خان یوسف زئی نے کچھ عرصہ وزارت تعلیم  اسلام آباد میں بطور یسرچ آفیسر خدمات انجام دیں،1995میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے انہیں    یوتھ آر گنائزیشن پنجاب کاجنرل سیکرٹری مقرر کیا۔ 1988میں جہانگیر احمد خان یوسفزئی کے چچا اسرار احمد خان یوسفزئی   معروف زمیندار سابق رکن پنجاب اسمبلی میاں محفوظ احمد کو شکست دے کر  پاکستان پیپلز پارٹی  کے ٹکٹ پر پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے جہانگیر احمد خان یوسف زئی  پارٹی میں بہت  فعال ر ہے ہیں۔جہانگیر احمد خان یوسف زئی نے10اکتوبر 2002کو پی؎پی پی کے ٹکٹ پر صوبائی حلقہ 239سے پنجاب اسمبلی کا الیکشن لڑا جس میں اُنہوں نے 21976ووٹ حاصل کیے۔اس موقع پر  انکے کزن اظہر احمد خان یوسف زئی  پاکستان پیپلز پارٹی  کے ٹکٹ پر اورنگزیب خان کھچی کو شکست دے کر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے 18فروری 2008کو جہانگیر احمد خان یوسفزئی کے بھائی محمود حیات خان عرف ٹوچی خان اورنگز یب خان کھچی کو شکست دے کر قومی اسمبلی کے رکن ہوئے۔جہانگیر احمد خان یوسف زئی 31 اکتوبر 2015کو پاکستان پیپلز پارٹی  کے ٹکٹ پر ٹاؤن کمیٹی جلہ جیم کے چیر مین منتخب  ہوئے۔ 

محمد جہانگیر ہاشمی

محمد جہانگیر ہاشمی میلسی کے تجارتی اور سماجی حلقوں میں بہت نمایاں ہیں وہ جائیداد کی خریدوفروخت کا کام کرتے ہیں۔ کھرے لین دین کی وجہ سے شہر میں اُنکے سماجی  وقار اور تجارتی ساکھ میں اضافہ ہواہے۔ محمد جہانگیر ہاشمی کے آباء ایک زمانے میں ہندوستان (مشرقی پنجاب) کے شہر روہتک میں رہتے تھے جہاں ایک محلے میں ہاشمی خاندان آباد تھا۔ 1947کے انقلاب کے بعد محمد جہانگیر ہاشمی کے والد محترم مومن علی ہاشمی اپنے گھر کے دوسرے افراد کے ساتھ ہجرت کرکے تاریخی شہر ملتان آئے۔ مومن علی ہاشمی پر نٹنگ کے شعبہ سے وابستہ ہوئے اور عزت و احترام کی زندگی گزارنے کے بعد 2013میں وفات پا گئے۔ محمد جہانگیر ہاشمی ملتان شہر میں 1958میں پیدا ہوئے وہ بخاری انگلش سکول ملتان میں زیر تعلیم رہے جہاں سے انہوں نے 1973میں میڑک کا امتحان پاس کیا۔ عملی زندگی میں آنے کے بعد محمد جہانگیر ہاشمی کاٹن جننگ کے کاروبار سے وابستہ ہوئے۔ محمد جہانگیر ہاشمی 1988میں میلسی آگئے۔ اُنہوں نے سبز پرچم اٹھایا اور مسلم لیگ میں شامل ہوئے جہانگیر ہاشمی 1994میں میاں نواز شریف کی قیادت میں جاری تحریک نجات میں گرفتار ہوئے محمد جہانگیر ہاشمی کا مسلم لیگ (ن) سے تعلق دیرنہ ہے۔ وہ  جماعت کی سیاسی سرگرمیوں میں شریک ہوتے ہیں۔ محمد جہانگیر ہاشمی خدمت خلق کا جذ بہ رکھتے ہیں اور فلاحی امور میں گہری دلچسپی لیتے ہیں۔ اُنہوں نے ایک موقع پر میلسی میں شوگر کے مریضوں کے لیے فری شوگر کیمپ لگایا۔ جہاں تقریباً چار سو مریضوں کو بلا معاوضہ معیاری ادویات دی گئیں۔ایک دوسرے موقع پر اُنہوں نے جلدی امراض میں مبتلا مریضوں کے لیے کیمپ لگایا اور 250مریضوں کوبلا معا وضہ ادویات دیں۔ محمد جہانگیر ہاشمی صحت مند سماجی سر گرمیوں میں حصہ لیتے ہیں وہ ڈسٹرکٹ امن کمیٹی وہاڑی کے سینئر ممبر ہیں۔ علاوہ ازیں وہCPLC وہاڑی کے وائس چیرمین بھی ہیں۔ میلسی سمیت ملک کے تمام شہروں میں امن کا قیام ایک اہم حکومتی اور شہری ذمہ داری ہے۔ میلسی  مذہبی حوالے سے اگرچہ ایک حساس شہر ہے مگر یہ بات باعث اطمینان ہے کہ یہاں ماہ محرم میں کبھی  تعزیہ کے جلوسوں اور عزاداری کی مجالس میں لاء اینڈ آرڈرکا مسئلہ پیدا نہیں ہواا س معاملے میں وہاڑی انتظامیہ اور محمد جہانگیر ہاشمی سمیت امن کمیٹی کے دیگر ممبران تحسین کے مستحق ہیں۔محمد جہانگیر ہاشمی میلسی کی فعال سماجی تنظیم ینگ مین سوسائیٹی کے چیرمین رہے ہیں۔ وہ کھلاڑیوں کے حو صلہ افزائی کرتے ہیں اور خود بھی کبڈی۔ ہاکی اور بیڈمنٹن کے کھلاڑی رہے ہیں۔ 2015 میں اُنہوں نے میونسپل کمیٹی میلسی وارڈ سے الیکشن لڑا مگر کامیاب نہیں ہوئے۔ محمد جہانگیر ہاشمی جید عالم اور حریت پسند سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے عقیدت مندوں میں سے ہیں۔۔ 

میاں سلیم اقبال قاضی  

اُمید وار پنجاب اسمبلی حلقہ 239تحصیل میلسی ضلع وہاڑی میا ں سلیم اقبال قاضی ایک زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ اُن کے آبا کبیروالا کے گاؤں کوٹ بٹہ سے نقل مکانی کر کے میلسی آئے تھے میاں سلیم اقبال قاضی کے دادا قاضی نور محمد کا میلسی شہر میں بڑا نام اور وقار تھا۔ قیام پاکستان سے پہلے اور کچھ عرصہ بعد تک قاضی نور محمد میلسی میں عید نماز کی امامت کرتے رہے اُس زمانے میں مسلمانوں کے تمام فرقے ایک ہی مقام پر اُن کی اقتدامیں نماز عید ادا کرتے تھے۔ قاضی نور محمد نے میلسی میں عید گاہ کے لیے زمین کا عطیہ بھی دیا تھا۔ اُنہوں نے نواب احمد یار خان دولتانہ اور دوسرے مسلمانوں کے ساتھ مل کر تاریخی مسجد تحصیل والی کو ازسر نو تعمیر کرایاتھا۔ قاضی نور محمد تحریک پاکستان کے رہنما مخدوم سید محمد رضا شاہ گیلانی کے قریبی دوست تھے اُنہوں نے قیام پاکستان کے وقت ہندوؤں  کے پر امن انخلا اور یہاں  مہاجر مسلمانوں کی آباد کاری میں اُن کی مدد کی تھی۔ مہاجر مسلمان قاضی نور محمد اور اُنکے بیٹے قاضی محمد اقبال (والد میاں سلیم اقبال قاضی)  کا بہت لحاظ کرتے تھے قاضی محمد اقبال ایک امن پسند زمیندار تھے۔ وہ پنچائتی  نظام کے ذریعے لوگوں کے جھگڑے ختم کراتے اور ان میں صلح کراتے تھے۔ قاضی محمد اقبال 1998تا1999میونسپل کمیٹی میلسی کے رکن رہے وہ ضیاء الحق دور حکومت میں زکو ۃ و عشر کمیٹی کے چیرمین بھی رہے تھے۔قاضی محمد اقبال عزت و احترام کی زندگی گزارنے کے بعد 23 جنوری 2003کو وفات پاگئے۔ میں سلیم اقبال قاضی یکم جنوری 1975کو اپنے آبائی شہر میلسی میں پیداہوئے۔ اُنہوں نے مڈل تک تعلیم ایف جی پبلک سکول میلسی سے حاصل کی جبکہ میٹرک کا امتحان گورنمنٹ ہائی سکول میلسی سے پاس کیا۔میاں سلیم اقبال قاضی دوسال گورنمنٹ ڈگری کالج میلسی میں زیر تعلیم رہے 1994میں انہوں نے ایف اے کا امتحان پاس کیا اور عملی زندگی میں آنے کے بعد آبائی پیشہ زراعت سے منسلک ہوئے۔میاں سلیم اقبال قاضی نے شہری مسائل کے حل میں دلچسپی ظاہر کی اُنہوں نے ملک عبدالجبار ملتانی، عبدالرزاق قریشی،  شیخ مسعود ظہیر اور شیخ عبد الجبار کے ساتھ مل کر سول ہسپتال میلسی میں ادویات عدم دستیابی، ڈاکٹر وں کی غیر موجودگی اور اور مریضوں کے ساتھ ڈاکٹر کے نا روا سلوک کے خلاف احتجاجی کیمپ لگایا جس پر ڈی سی او وہاڑی نے نوٹس لیا۔ اور شکایا ت کے ازالے کے لیے اقدامات کیے۔ اسی سال اُنہوں نے کالونی روڈ میلسی پر غیر قانونی رمضان بازار کے خلاف شہریوں کے ساتھ ملکر احتجاج کیا ہائی کورٹ نے ان کے موقف کو درست قرار دیتے ہوئے۔ رمضان بازار کو دوسری جگہ منتقل کرنے کے احکامات صادر کیے۔ شہری مسائل میں دلچسپی کی وجہ سے انکے وقار میں بہت اضافہ ہوامیاں سلیم اقبال قاضی نے برما میں مسلمانوں پر ظلم کے خلاف احتجاجی تحریک میں حصہ لیا میاں سلیم اقبال قاضی پریس کلب عید گاہ روڈ میلسی اور انجمن تاجران میلسی  ہر دو تنظیموں کی مصا لحتی کمیٹی کے چیرمین ہیں۔ میاں سلیم اقبال قاضی 2018میں صوبائی حلقہ 239سے پنجاب اسمبلی کا الیکشن لڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔میا ں سلیم اقبال قاضی کے بڑے بھائی میاں نسیم محمود قاضی ایک امن پسند انسان ہیں وہ میلسی شہر میں اپنے ڈیرے میں بیٹھ کر لوگوں کے مسائل سنتے ہیں اور انکے حل کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔

چودھری شیرمحمدگھلوی جٹ برولہ

چودھری شیرمحمدگھلوی جٹ برولہ 1913ء میں مشرقی پنجاب کے گاؤں ملک پور تھانہ راہوں تحصیل نواں شہر ضلع جالندھر میں پیداہوئے ان کے والد محترم چودھری نبی بخش وہاں کے ایک معزز زمیندار تھے چودھری شیرمحمدگھلوی نے میٹرک تک تعلیم حاصل کی اورجوانی میں تحریکِ پاکستان میں حصّہ لیا۔تقسیم ہند کے بعد یہ خاندان پاکستان آیا اُنہیں تحصیل میلسی میں زرعی زمین الاٹ کی گئی چودھری شیرمحمدگھلوی نے قیامِ پاکستان کے وقت میلسی میں مہاجرین کی آبادکاری میں ان کی مدد کی تھی اُنہوں نے 1952ء میں دوکوٹہ میں ہائی سکول کے قیام کے لئے چار ایکڑزمین کاعطیہ دیاتھا چودھری شیرمحمدکی علم دوستی کی وجہ سے اُنہیں بہت عزت اورمقبولیت ملی۔ 1951ء میں چودھری شیرمحمد گھلوی نے مسلم لیگ کے ٹکٹ پرپنجاب اسمبلی کاالیکشن لڑاتھا۔ 1979ء میں چودھری شیرمحمدگھلوی معروف زمیندار میاں محمدممتاز خان بھابھہ (بعدازاں ایم این اے) اورمیاں ممتاز حسین سنڈھل اور یعقوب خان ماہنی کوشکست دے کر ڈسٹرکٹ کونسل وہاڑی کے رکن منتخب ہوئے چودھری شیرمحمد گھلوی 24 جون 1987ء کوعزت واحترام کی زندگی گزارنے کے بعد وفات پاگئے۔1987ء میں چودھری شیرمحمدگھلوی کے بیٹے چودھری ارشاداحمد ڈسٹرکٹ کونسل وہاڑی کے رکن اورچودھری ریاض احمد یونین کونسل لالی پور کے چیئرمین منتخب ہوئے1991ء چودھری ریاض احمد دوبارہ یونین کونسل لالی پورکے چیئرمین اورچودھری ارشاداحمد دوبارہ ڈسٹرکٹ کونسل وہاڑی کے رکن منتخب ہوئے۔1998 ء میں چودھری ریاض احمد گھلوی ڈسٹرکٹ کونسل وہاڑی کے رکن منتخب ہوئے۔ 2001ء میں چودھری ریاض احمدیونین کونسل کے ناظم منتخب ہوئے۔31 /اکتوبر 2015 ء کو چودھری شیرمحمدگھلوی کے بیٹے چودھری ریاض احمد گھلوی یونین کونسل 101 تحصیل میلسی کے جبکہپوتے چودھری قیصر عباس گھلوی (ولدچودھری ارشاداحمد گھلوی) یونین کونسل 103 لال سگوتحصیل میلسی کے چیئرمین منتخب ہوئے۔ چودھری ارشاداحمدگھلوی کا عوامی رابطہ بہت وسیع ہے وہ اپنے ڈیرے پر بیٹھ کر لوگوں کے مسائل سنتے ہیں اور اُن کے حل کے لیے ہرممکن کوشش کرتے ہیں۔ چودھری شیرمحمد گھلوی کے نامور بھتیجے چودھری فداحسین گھلوی اسلامی تحریک پاکستان کے نائب صدر ہیں۔

مہر عبد الخالق

میونسپل کمیٹی میلسی کے وائس چیر مین مہر عبد الخالق میلسی شہر کے سماجی اور سیاسی منظر نامے پر بہت نمایاں ہیں ۔ وہ زرعی ادویات کا کاروبار کرتے ہیں کھرے لین دین کے باعث اُنہوں نے اپنی مضبوط تجارتی ساکھ بنائی ہے۔
مہر عبد الخالق یکم نومبر 1966کو پیدا ہوئے ۔ اُنکے والد محترم مہر نور محمدارائیں ایک معزز زمیندار تھے وہ تحصیل میلسی کے موضع سپڑا اور موضع تیل چراغ میں زرعی زمینوں کے مالک تھے مہر نور محمد ایک امن پسند انسان تھے وہ عزت و احترام کی زندگی گزارنے کے بعد 2003میں وفات پا گئے ۔ مہر عبد الخالق میلسی کی تاریخی درس گاہ گورنمنٹ ہائی سکول میلسی میں زیر تعلیم رہے یہا ں سے انہوں نے 1984میں میٹرک کا امتحان پاس کیا اسی سا ل وہ گورنمنٹ ڈگری کالج میں داخل ہوئے اور1986میں اُنہوں نے ایف اے کا امتحان پاس کیا۔
عملی زندگی میں آنے کے بعد مہر عبد الخالق نے آبائی پیشہ زراعت اختیار کیااور اس کے ساتھ ساتھ زرعی ادویات کے کاروبار سے بھی وابستہ ہوئے اُنہوں نے نصرت ایزدی اور محنت شاقہ کے باعث کاروبار میں بہت ترقی کی ۔ مہر عبد الخالق انجمن تاجران زرعی ادویات میلسی کے نائب صدر منتخب ہوئے ۔1987میں مہر عبد الخالق کے ماموں مہر حاجی خدا بخش عبدالقادر خاں کچھی کو شکست دے کر ڈسٹر کٹ کونسل وہاڑی کے رکن منتخب ہوئے مہر عبد الخالق صحت مند معاشرتی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں وہ گورنمنٹ ہائی سکول میلسی کی سکول کونسل کے چیر مین ہیں مہر عبد الخالق کوگوں کے دکھ سکھ میں شریک ہونے لگے جس کی وجہ سے زمانے میں انہیں بہت مقبولیت ملی 2015 میں اُنہوں نے رکن قومی اسمبلی سعید احمد خان منیس اور کچھ دوسرے دوستوں کے اصرار پر میونسپل کمیٹی میلسی کا الیکشن لڑا مہر عبد الخالق وارڈ نمبر 2سے معروف زمیندار عالمگیر خان کھچی کو شکست دے کے میونسپل کمیٹی میلسی کے کونسلر منتخب ہوئے ۔مہر عبدالخالق 22دسمبر 2016کو میونسپل کمیٹی میلسی کے وائس چیر مین منتخب ہوئے اس موقع پر توصیف احمد خان یوسفزئی میونسپل کمیٹی میلسی کے چیرمین منتخب ہوئے۔

چوہدری محمد بلال ایڈوکیٹ 

پاکستان پیپلز پارٹی تحصیل میلسی کے صدر چوہدری محمد بلال ایڈوکیٹ پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں وہ فوجداری اور دیوانی مقدمات میں بہت مہارت رکھتے ہیں پاکستا ن پیپلز پارٹی کے ساتھ اُن کا تعلق بہت دیرینہ ہے اور وہ جماعت میں ہمیشہ فعال رہے ہیں چوہدری محمد بلال 15اکتوبر 1974کو میلسی کے نواحی قصبہ خان پور میں پیدا ہوئے ۔ اُن کے والد محترم چوہدری عبیداللہ ارائیں وہاں کے ایک معزز زیندار تھے یہ خاندان 1947کے انقلاب کے بعد فیروزآباد تحصیل سرسہ ضلع حصار سے ہجرت کرکے یہاں آیا تھا ۔ چوہدری محمد بلال کے دادا محترم چوہدری بشیر دین ایک علم دوست اور باشعور زمیندار تھے ۔ چوہدری بشیر دین کے کتب خانے میں اسلامی موضوعات پر لکھی گئی 12ہزار کتابیں موجود تھیں۔چوہدری بشیر دین اُن کے دوستوں اور ان کی برادری کی کامیاب کوششوں کے نتیجے میں انگریز حکومت نے فیروز آباد گاؤں کے لیے نہری پانی کی منظوری دی تھی۔ چوہدری عبیداللہ ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت اور اُنکے سیاسی فلسفے سے بہت متاثر ہوئے اُنہوں نے سہ رنگا پرچم اُٹھایا اور پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے وہ پاکستان پیپلز پارٹی تحصیل میلسی کے پہلے نائب صدر مقرر ہوئے چوہدری عبیداللہ نے 1970کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے لیے گرانقدر خدمات انجام دیں ملتان میں صاحب زادہ فاروق علی خان کے گھر پر ذوالفقار علی بھٹو نے انکی جدوجہدکو سراہا اور اُنہیں 2تلواریں بھی بطور تحفہ دیں ۔چوہدری عبیداللہ مذہبی خدمت کا جذبہ رکھتے تھے ۔چوہدری عبیداللہ پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ وابستہ رہے اور عزت واحترام کی زندگی گزارنے کے بعد 15دسمبر 2014کو وفات پا گئے ۔ 
چوہدری محمد بلال ایڈوکیٹ گورنمنٹ ہائی سکول میلسی میں زیر تعلیم رہے جہاں سے اُنہوں نے میٹرک تک تعلیم حاصل کی چوہدری محمد بلال نے اپنا علمی سفر جاری رکھا اُنہوں نے بی۔کام کا امتحان پاس کیااور معروف تعلیمی ادارے بہاء الدین زکریا یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ میں داخل ہوئے جہاں سے انہوں نے 1997میں ایم ۔اے تاریخ کا امتحان پاس کیااور بعد ازاں اُنہوں نے 1999میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے ایم ۔اے مطالعہ پاکستان کا امتحان بھی پاس کیا مزید برآں چوہدری محمد بلال نے 2000میں بہاء الدین یونیورسٹی ملتان سے ایل ایل بی کا امتحان پاس کیا۔ 
عملی زندگی میں آنے کے بعد چوہدری محمد بلال نے سردار عبداللطیف خان کھوسہ ( بعد ازاں گورنر پنجاب )اور معروف قانون دان سلیمان بھٹی ایڈوکیٹ کی رہنمائی میں ملتان میں وکالت کا آغاز کیا چوہدری محمد بلال ایڈوکیٹ 2008میں میلسی آگئے اوریہاں وکالت کا آغاز کیا 2005میں وہ ریکارڈ وٹو ں کے ساتھ ضلع اسمبلی وہاڑی کے کسان ممبر منتخب ہوئے اور 2010تک اس عہدے پر فائز رہے ۔ چوہدری محمد بلال 2004میں لاہور ہائی کورٹ ( ملتان بینچ )بار کے ایگزیکٹو ممبر منتخب ہوئے وہ 2006میں لاہور ہائی کورٹ (ملتان بینچ) بار کے جوائنٹ سیکٹری منتخب ہوئے اس موقع پر حبیب اللہ شاکر بار کے صدر منتخب ہوئے تھے ہائی کورٹ بار کی دعوت پر معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری وکلاء سے خطاب کرنے کے لیے ملتان آئے تھے 2007کی تحریک بحالیء عدلیہ میں افتخار محمد چوہدری کو پاکستان کی قانونی برادری اور سیاسی جماعتوں سے جو پذیرائی ملی اُس کی جھلکیاں تاریخ کے جھروکوں میں سے جھانک کر دیکھی جاسکتی ہیں چوہدری محمد بلال اس تحریک کے دوران نومبر 2007 میں گرفتار ہوئے اور 25دن میانوالی ڈسٹرکٹ جیل میں بند رہے یہ وہ موقع تھاجب ملتان کے نامور وکلاء محمود اشرف خان ،خالد اشرف خان، حبیب اللہ شاکر ، سید اطہر بخاری ، مخدوم جاوید ہاشمی رانا نوید بھی میانوالی جیل میں بند تھے۔پیپلز پارٹی کے رکن پنجاب اسمبلی سردار محمد کھچی کی وفات کے بعد خالی ہونے والی صوبائی اسمبلی کی نشست کے لیے پیپلز پارٹی کی مقامی ضلعی قیادت نے چوہدری محمد بلال کو امید وار نامزد کیا تھالیکن محمود حیات خان عرف ٹوچی خان نے عمران خان کھچی کومرحوم کا بھتیجا ہونے کے باعث نامزد کیا ۔ چوہدری محمد بلال 2013میں پاکستان پیپلز پارٹی تحصیل میلسی کے صدر مقرر ہوئے اور تا حال اس عہدے پر فائز ہیں ۔