‘Adabi Istilahaat’, written by Professor Anwar Jamal is a masterpiece and invaluable contribution to linguistics. The
unusual book has not only extended the horizon of Urdu, but made the author’s colleagues and students proud of him. If
books of this caliber continue to come out in succession, there is reason enough to believe that Pakistan will become a
developed country in the modern world. I feel inspired as I go through the book and wonder how I can define perfection
of the author. The author has precisely illustrated literary terminology frequently used by critics, linguists and teachers.
The book is indispensable for writers and the students of criticism. Professor Anwar Jamal was born in the city of saints
on April 1, 1948 and received education from various educational institutions. Professor Anwar Jamal did his MA (Urdu)
and MA (Education) and took up education as profession. He spent most of his life in class rooms either as a teacher or
as a student. In the meantime, he wrote several books and articles. Admired by men of letters and men of note,
Professor Anwar Jamal has shown excellence in calligraphy as well.( Muhammad Mumtaz Khan Dahar)
……….اردو کے اصلاح کار ممتاز ڈاہر ……
میلسی میں اُردو نثر میں لسانیات اور تاریخ نویسی کے حوالے سے ممتاز خان ڈاہر کا نام جانا جاتا ہے۔
انہوں نے گذشتہ پندرہ سالوں کے دوران اردو زبان اور ملتان ڈویژن کی تاریخ نویسی کے ذریعے بہت شہرت پائی۔
ممتاز خان ڈاہر میلسی کے ریلوے چوک میں گلی ڈاہراں والی کے رہائشی ہیں اور 31 اگست 1956ء میں پیدا ہوئے۔
انہوں نے پرائمری تک تعلیم مدرسہ تعلیم القرآن ملتان روڈ میلسی سے حاصل کی اور گورنمنٹ ہائی سکول میلسی سے 1972ء میں میٹرک اور 1978ء میں بہاوالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے گریجویشن کی۔ اس دوران وہ اپنے والد کے ساتھ جیننگ کے پیشہ سے بھی منسلک رہے۔
انہوں نے بتایا کہ 2001ء میں ان کی پہلی کتاب تاریخِ میلسی کے نام سے شائع ہوئی جسے تحصیل بھر میں بہت پذیرائی ملی۔
’تاریخِ میلسی وہ کتاب ہے جس میں سیاسی، سماجی، علمی، تحریکی اور مذہبی زاویوں سے میلسی کی تاریخ کو اجاگر کیا گیا اور میلسی کے جاگیرداروں کے کچھ مشہور مظالم کے حوالے سے پہلی بار تمام کرداروں کے ساتھ تذکرہ کیا گیا۔‘
ممتاز ڈاہر کہتے ہیں کہ تاریخ میلسی چھپنے کے بعد انہوں نے اردو لفظوں کی ساخت، اصلیت، ماخذ اور تاریخ کے حوالے سے ریسرچ کرنا شروع کی اور 2007 میں ان کی کتاب سیاحتِ لفظی پبلش ہوئی جس کے ذریعے اردو زبان سے اپنی محبت کا ثبوت دیتے ہوئے اس کی لاثانی حیثیت کو اجاگر کیا۔
ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس کتاب کو تکمیل کرنے کے لیے ماہرین زبانِ اردو کے ساتھ خط وکتابت کی اور مکمل تحقیق کے ساتھ قومی زبان سے محبت رکھنے والوں کو ایک انمول تحفہ دیا۔
میلسی گورنمنٹ کالج میں اردو کے لیکچرار شفیق الرحمٰن کا کہنا ہے کہ سیاحتِ لفظی لغت کے لحاظ سے یہ میلسی کی پہلی کتاب ہے جس میں الفاظ کے تلفظ اور دیگر لاثانی پہلووں پر تحقیق کی گئی ہے جس کی وجہ سے قومی زبان کے روز مرہ استعمال، مضمون نویسی، اخبار نویسی سے متعلق افراد کے علاوہ طالب علم، اساتذہ اور محققین کو فائدہ ہو گا۔
میلسی کے مرزا مسرور بیگ ایڈووکیٹ سیاحتِ لفظی کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس کتاب میں لغت سے لے کر الفاظ کے استعمال تک کے علمی سفر میں ممتاز خان ڈاہر نے اردو زبان سے جنونی پنجاب کے نوجوانوں میں محبت پیدا کی۔
ان کا کہنا ہے کہ اردو لغت نگاری اس وقت جمود کا شکار ہے۔ اگرچہ بیسویں صدی سے قبل لغت کی کتابیں مثلاً فرہنگِ آصفیہ، اردو لغت (تاریخی اصولوں پر)، فرہنگِ عامرہ، فیروز اللغات، نسیم اللغات اور فرہنگِ تلفظ جیسے خزانے موجود ہیں۔
’لیکن بیسویں صدی کے دوسرے نصف میں عالمی سطح پر انگریزی زبان کے اثرات کی وجہ سے پاکستان میں اردو لسانی تحقیق پر رفتار سست رہی ہے۔ ان مشکلات کا کافی حد تک حل ہمیں سیاحتِ لفظی سے ملا ہے۔‘
ملتان کے آصف علی بھٹی پیشہ کے لحاظ سے پبلیشر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سیاحتِ لفظی دو سو صفحات پر مشتمل ہے جس کے چار ابواب ہیں۔ پہلے باب میں اردو الفاظ کی اصلیت، دوسرے باب میں اردو میں شامل عربی فارسی الفاظ کی بحث، تیسرے باب میں تلفظ کے قواعد کا جدید انداز میں ذکر اور چوتھے باب میں مرکب لفظوں کی ترکیب سازی پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
’حال ہی میں عدالتِ عظمیٰ نے اردو زبان کو سرکاری دفاتر میں رائج کرنے کے احکامات دئیے ہیں یہ کتاب ان محققین کے لیے مدد گار ثابت ہو گی جو اردو میں استعمال ہونے والی انگریزی اصلاحات کا خالص اردو میں ترجمہ کرنا چاہتے ہیں۔‘
ممتاز خان ڈاہر بتاتے ہیں کہ انہوں نے 2010ء میں اس سلسلے کو آگے بڑھایا اور اپنی کتاب ’چند الفاط کی تحقیق اور تلفظ‘ کے نام سے شائع کی جس میں بکثرت استعمال ہونے والے مشکل الفاظ کی وضاحت کی گئی ہے۔
وہاڑی ڈسٹرکٹ بار کے سابق صدر سید ندیم رضا بخاری کہتے ہیں کہ ممتاز خان ڈاہر کی کتاب ’چند الفاظ کی تحقیق اور تلفظ‘ 128 صفحات پر مشتمل ہے جس میں عربی، اردو اور فارسی کے ان الفاظ پر بحث شامل ہے جو اردو میں بکثرت استعمال ہوتے ہیں۔
’کتاب میں تلفظ، عروض کے قواعد کو سائنسی طریقے سے دلیل اور وجہ دونوں کو سامنے رکھ کر بات کی گئی ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ تدریس میں آنے والے اساتذہ اس کتاب سے بھر پور استفادہ حاصل کر کے علم کی روشنی کو مزید پھیلا سکتے ہیں اسکے علاوہ مصنفین و شعراء کے لیے حوالے کے طور پر بھی یہ کتاب مفید ہے۔‘
ممتاز ڈاہر بتاتے ہیں کہ انہوں نے 2012ء میں ’ملتان کا کاروانِ سیاحت‘ کے عنوان سے کتاب شائع کی جس میں1947ء سے 2001ء تک کے ان سیاسی افراد اور تحریکوں کا بیان موجود ہے جو ملتان ڈویژن کے مختلف اضلاع ملتان، خانیوال، وہاڑی اور لودھراں سے تعلق رکھتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ یہ کتاب 577 صفحات پر مشتمل ہے جس میں 293 شخصیات کا ذکر ہے۔ اسکے علاوہ ملتان کے لوگوں نے غیر ملکی حملہ آوروں کا کس طرح مقابلہ کیا۔ دولتانہ، گیلانی، کھگہ، بوسن، سید خاندان نے تحریک پاکستان اور بعد ازاں جمہوریت کے لیے جو کردارا ادا کیے اس کتاب میں ذکر کیا گیا ہے۔
’کتاب میں 1970ء کی سیاسی بیداری، 1974ء کی تحریکِ ختمِ نبوت، 1977ء کی تحریک نظامِ مصطفٰی اور 2007ء کی تحریک بحالی عدلیہ میں شامل سیاسی کارکنوں، اراکینِ اسمبلی، سیاسی جدو جہد کرنے والوں کا ذکر اور موجودہ گورنر ملک رفیق رجوانہ کا ذکر بھی اس کتاب میں سنِ اشاعت کے وقت سے موجود ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ان کی کتاب ’ملتان کا کروانِ سیاحت‘ مطالعہ پاکستان، تاریخِ پاکستان، سیاستِ پاکستان کے طلبہ کے لیے مفید ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ان کی دو آنے والی کتابوں میں ’تحریکِ پاکستان‘ جس میں تحریک پاکستان کے لیے چلنے والی موومنٹس کا ذکر کیا گیا ہے
اسکے علاوہ دوسری کتاب ’ملتان کی شاندار تاریخ‘ جو سرائیکی زبان میں لکھی گئی تھی اس کا انہوں نے اردو زبان میں ترجمعہ مکمل کر لیا ہے بہت جلد طباعت کے بعد قارئین کے ہاتھوں میں ہو گی۔