بار و بینچ

ملک مشتاق احمد گنب ایڈووکیٹ

گنب قدیمی زمیندار ہیں تحصیل میلسی کے دیہات ہردو گنب ،سعی گنب اور گنب بادہ میں اُنکی زرعی زمینیں ہیں ۔میلسی بار ایسوسی ایشن کے سابق  صدر ملک مشتاق احمد گنب 14 جنوری 1968ء کو اپنے آبائی گاؤں ہر دوگنب میں پیدا ہوئے  اُنکے والد محترم حاجی گل محمد یہاں کے ایک معزز زمیندار ہیں جنہوں نے زراعت میں مہارت اپنے خاندان سے ورثے میں پائی ہے ملک مشتاق احمد گنب نے میٹرک تک تعلیم تاریخی درس گاہ گورنمنٹ ہائی سکول میلسی سے حاصل کی جبکہ ایف ایس سی  کا امتحان 1986 ء میں گورنمنٹ گریجویٹ کالج وہاڑی سے پاس کیا۔ بہاءالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے 1988ء میں بی اے کا امتحان پاس کرنے کے بعد ملک مشتاق احمد گنب نے  بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے قانون کی تعلیم مکمل کی اور1991ء میں ایل ایل بی کا امتحان پاس کیا ملک مشتاق احمد گنب نے 1992ء میں معروف قانون دان مہر محمد عارف سیال سابق (ریٹائرڈ ) سیشن جج کی رہنمائی میں میلسی میں وکالت کا آغاز کیا ۔ وہ میلسی بار ایسوسی ایشن کے رکن بنے1993 میں اُنہوں نے لوئر کورٹ جبکہ 1995میں ہائی کورٹ کا لائسنس حاصل کیا  ۔ ملک مشتاق احمد گنب نے دیوانی اور فوجداری مقدمات میں بہت مہارت حاصل کی ملک مشتاق احمد گنب 2009-10 میں میلسی بار ایسوسی ایشن کےصدر رہے ہیں اُنہوں نے چیف جسٹس آف  پاکستان  افتخار محمد چوہدری کی معزولی کے خلاف وکلاء تحریک میں حصہ لیا ۔ ملک مشتاق احمد گنب میلسی بار میں بہت نمایاں ہیں وکلاء کے مسائل کے حل میں دلچسپی لیتے ہیں اور نوجوان وکلاء کے رہنمائی کرتے ہیں ۔ 

چوہدری محمد اسلم ایڈووکیٹ

سابق صدر میلسی بار ایسوسی ایشن چوہدری محمد اسلم ایڈووکیٹ
کا وکالت میں تجربہ 26 سال پر محیط ہے ۔ وہ دیوانی اور فوجداری مقدمات
میں بہت مہارت رکھتے ہیں ۔ چوہدری محمد اسلم 18مارچ 1969 کو
موضع فدا تحصیل میلسی میں پیدا ہوئے ۔ اُن کے والد محترم چوہدری محمد
قاسم یہاں کے ایک معزز زمیندار ہیں ۔ یہ خاندان 1947 کے انقلاب کے بعد
مشرقی پنجاب کے ضلع حصار سے ہجرت کر کے یہاں آباد ہوا تھا ۔
چوہدری محمد اسلم کے چچا چوہدری محمد شاکر کا بڑا نام او روقا رتھا وہ
یونین کونسل فدا کے ممبر تھے ۔ کھچی خاندان کے ساتھ ان کے گہرے
دوستانہ مراسم تھے ۔ جس کی وجہ سے کھچی فیملی چوہدری محمد اسلم
اور ان کے خاندان کا احترام کرتی ہے ۔ چوہدری محمد اسلم نے میٹرک تک
تعلیم تاریخی درسگاہ گورنمنٹ ہائی سکول میلسی سے حاصل کی بعد ازاں
وہ گورنمنٹ گریجویٹ کالج آف سائنس بوسن روڈ ملتان میں داخل ہوئے ۔
جہاں سے انہوں نے 1988 میں FScکا امتحان پاس کیا ۔ وہ 2 سال
گورنمنٹ ایمرسن کالج ملتان میں زیر تعلیم رہے ۔ یہاں سے انہوں نے
1990 میں بی اے کیا ۔ چوہدری محمد اسلم قانون کی تعلیم کے لیے لاہور
چلے گئے اور عالمی شہرت کی حامل درس گاہ پنجاب یونیورسٹی میں داخل
ہوئے ۔ انہوں نے 2 سال میں تعلیم مکمل کی اور 1993 میں ایل ایل بی کا
امتحان پاس کیا 1996 میں لاہور میں معروف قانون دان فاروق امجد میر
(سابق ناظم ضلع حکومت لاہور'سابق رکن قومی اسمبلی ) کی راہنمائی میں
وکالت کا آغاز کیا تاہم جلد میلسی آگئے ۔ چوہدری محمد اسلم نے قانونی
کتب کا بنظر غائر مطالعہ کیا ۔ وہ مقدمات میں باقاعدگی اور حُسن اخلاق
کے باعث ایک کامیاب وکیل بن گئے ۔ آج میلسی بار میں اُن کا بڑا نام ہے ۔
چوہدری محمداسلم ایڈووکیٹ 2004 میں میلسی بار ایسوسی ایشن کے
جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے ۔ اُن کی درخواست پر محمد ممتاز خان کھچی
ناظم ضلع حکومت وہاڑی نے میلسی بار روم کے فرنیچر اور اس کی تزئین
و آرئش کے لیے رقم فراہم کی تھی ۔ میلسی بار ایسوسی ایشن نے اس رقم
میں سے لائبریری کی رینویشن کے ساتھ ساتھ بار ایسوسی ایشن کے صدر
کے لیے ایک دفتر بھی تعمیر کروایا ۔ چوہدری محمد اسلم ایڈووکیٹ
2012 میں میلسی بار ایسوسی ایشن کے صدر منتخب ہوئے ۔ 15 مارچ
2012 کو وزیر اعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی نے میلسی میں ایک
جلسئہ عام سے خطاب کیا ۔ اس موقع پر وزیر اعظم نے چوہدری محمد اسلم

کی درخواست میلسی بار کے لیے 20 لاکھ روپے کی گرانٹ کا اعلان کیا ۔
چوہدری محمد اسلم نے اپنی علمی ذوق اوربار کے مشورے کے ساتھ اس
رقم سے لائبریری کی نئی شاندار عمارت تعمیر کرائی اور لائبریری کےلیے
ضروری کتب خرید کیں ۔ اُنہوں نے لائبریری کے لیے کمپیوٹر روم بھی
تعمیر کروایا اور عصر تقاضوں کے مطابق اسے ویب سائٹس کے ساتھ
منسلک کیا ۔ چوہدری محمد اسلم کی درخواست پر چیف جسٹس لاہور ہائی
کورٹ شیخ عظمت سعید نے میلسی بار کے لیے 3 لاکھ روپے کا چیک دیا۔
چوہدری محمد اسلم کے بیٹے محمد حمزہ چوہدری لاہور کے معروف تعلیمی
ادارے PACK میں سی اے (چارٹر اکاؤنٹینٹسی) کے طالب علم ہیں۔

رانا دلاور خان ایڈووکیٹ
تحصیل میلسی کے مختلف دیہات میں راجپوت برادری کی زرعی
زمینیں ہیں ۔ یہ برادری 1947 کے انقلاب کے بعد یہاں آباد ہوئی ۔ رانا
دلاور خان ایڈووکیٹ میلسی کے ایک معروف اور ممتاز وکیل ہیں ۔ وہ کم
وبیش 28 سال سے اس پیشے سے وابستہ ہیں ۔ اُنہوں نے محنت اور
مقدمات کی پیروی میں باقاعدگی کے سبب اپنے پیشے میں کامیابی حاصل
کی ہے ۔ رانا دلاور خان ایڈووکیٹ7 فروری 1966 کو بستی گوگیڑی
موضع نوڑبہ تحصیل میلسی میں پیدا ہوئے ۔ اُن کے والد محترم حاجی ملک
محمد یہاں کے ایک معزز زمیندار تھے حاجی ملک محمد عزت و احترام کی
زندگی گزارنے کے بعد 2010 میں وفات پا گئے ۔ رانا دلاور خان نے
میٹرک تک تعلیم گورنمنٹ ہائی سکول بلند پور سے حاصل کی جبکہ ایف
اے کا امتحان 1986 میں گورنمنٹ گریجویٹ کالج میلسی سے پاس کیا ۔
1988 میں انہوں نے بی اے جبکہ 1991 میں ایم اے ( پولیٹیکل سائنس)
کیا ۔ وہ قانون کی تعلیم کے لیے ملتان لا کالج میں داخل ہوئے اور 2 سال
کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد 1994 میں ایل ایل بی کا امتحان پاس کیا ۔
رانا دلاور خان نے معروف قانون دان ملک محمد حنیف ارائیں ایڈووکیٹ
اور ملک قادر بخش تھیہم کی راہنمائی میں وکالت کا آغاز کیا 1995 میں
پنجاب بار کونسل نے اُنہیں ماتحت عدالتوں میں مقدمات کی پیروی کا
لائسنس جاری کیا ۔ سال 2000 میں اُنہیں ہائی کورٹ میں مقدمات میں پیش
ہونے کا لائسنس ملا ۔ رانا دلاور خان ایڈووکیٹ ایک کل وقتی وکیل ہیں ۔ وہ
قومی سیاسی معاملات میں گہری دلچسپی لیتے ہیں ۔ 9 مارچ 2007 کو
پاکستان کے فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف نے غیر آئینی طریقے سے
چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری کو اُن کے عہدے سے ہٹا
دیا۔ صدر پرویز مشرف کے اس اقدام کے خلاف پورے پاکستان میں وکلا ء
برادری نے پُر امن احتجاجی تحریک شروع کی ۔ جو چوہدری افتخار محمد
چوہدری کی بحالی پر منتج ہوئی ۔ رانا دلاور خان اور میلسی کے دوسرے
وکلاء نے اس تحریک میں بھر پور حصہ لیا ۔ رانا دلاور خان
ایڈووکیٹ2013 میں عمران خان (بعد ازاں وزیر اعظم پاکستان) کے سیاسی
فلسفے سے متاثر ہوکر پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہوئے ۔ وہ 14
اگست 2014 کو لاہور گئے جہاں اُنہوں نے عمران خان کی زیر قیادت
اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ میں شرکت کی ۔ لانگ مارچ کے شرکا نے
اسلام آباد میں 124 دن دھرنا دیا ۔ رانا دلاور خان نے 2018 کے عام
انتخابات میں پی ٹی آئی کی انتخابی مہم میں بھر پور حصہ لیا ۔ ان انتخابات
میں محمد اورنگزیب خان کھچی میلسی سے پی ٹی آئی کی ٹکٹ پر رکن
قومی اسمبلی جبکہ محمد جہانزیب خان کھچی رکن پنجاب اسمبلی منتخب
ہوئے ۔ رانا دلاور خان ایڈووکیٹ پی ٹی آئی کے جلسوں اور مظاہر وں میں
شرکت کے لیے اسلام آباد ، لاہور ،ملتان ، وہاڑی ، بہاولپور اور دوسرے
شہروں میں گئے ہیں ۔ 10 مارچ 2023 کو رانا دلاور خان ایک قافلے کے
ساتھ لاہور گئے جہاں اُنہوں نے پی ٹی آئی کے کارکنوں کے ساتھ ملکر
زمان پارک میں عمران خان کی جان کی حفاظت کے لیے پہرہ دیا اور ان
کے ساتھ اپنی وفاداری کا عہد کرتے ہوئے جذباتی نعرے لگا ئے ۔ جن کی
صدائے باز گشت فیس بک کے ذریعے پورے پاکستان میں سنی گئی ۔ ان
نعروں سے پاکستان میں اور پاکستان سے باہر پی ٹی آئی کے کارکنوں کو
بہت حوصلہ ملا

  سید شبیر حسین کاظمی

سید شبیر حسین کاظمی کا میلسی بار میں بڑا نام ہے وہ تین مرتبہ بار ایسوسی ایشن میلسی کے صدر منتخب ہوئے ہیں ۔سید شبیر حسین کاظمی کے آبا ایران کے شہر مشہد سے ہجرت کر کے سوات آئے تھے ۔کاظمی اسلاف میں سے ایک بزرگ حضرت امام بری سرکار نے اشاعت اسلام میں غیر معمولی کردار ادا کیا ۔ آپ کا مزار اسلام آباد کے نواح میں ہے جہاں پاکستان کے طول وعرض سے اُنکے عقیدت مند زیارت کے لیے آتے ہیں ۔ کاظمی خاندان آسمانِ ولایت کے ساتویں ستارے حضرت امام موسیٰ کاظم ؑ کی اولاد ہیں ۔ سید شبیر حسین کاظمی کی ولادت 5 مئی 1964 کو کٹھالہ شیخاں تحصیل بھا لیہ ضلع گجرات میں ہوئی انکے والد محترم سید جعفر حسین شاہ مذہبی اور انسانی خدمت کا جذ بہ رکھتے تھے ۔ سید شبیر حسین کاظمی نے میٹرک کا امتحان 1982 میں گورنمنٹ ہائی سکول گڑھا موڑ میلسی سے کیا جبکہ بی تک تعلیم گورنمنٹ اسلامیہ کالج وہاڑی سے حاصل کی 1991 میں پنجاب لا کالج سے ایل ایل بی کا امتحان پاس کرنے کے بعد معروف قانون دان سابق رکن قومی اسمبلی وزیر علی بھٹی کی رہنمائی میں لاہور میں وکالت کا آغاز کیا مگر جلد میلسی آگئے۔اُنہوں نے فوجداری اور دیوانی مقدمات میں بہت مہارت حاصل کی۔ سید شبیر کاظمی نے وکلاء کے مسائل کے حل میں گہری دلچسپی لی ۔وہ 2007 کی تحریک بحالی عدلیہ میں شریک رہےسید شبیر حسین کاظمی 2010 میں پہلی مرتبہ ،2016 میں دوسری مرتبہ اور 2022 میں تیسری مرتبہ میلسی بار ایسو سی ایشن کے صدر منتخب ہوئے 2010 میں سید شبیر حسین کاظمی کی دعوت پر چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ خواجہ محمد شریف نے میلسی بار سے خطاب کیا ۔ 2016 میں سینئر جسٹس لاہور ہائی کورٹ سید کاظم رضا شمسی سید شیبر حسین کاظمی کی دعوت پر میلسی آئے ۔ 2022 میں لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد امیر بھٹی نے سید شبیر حسین کاظمی کی دعوت پر میلسی بار سے خطاب کیا ۔ اس موقع پر اُنہوں نے بار اور بینچ کی فلاح کے لیے متعدد ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کیا ۔ ان منصوبوں میں وکلاء کے لیے نئے چمبر ز کی تعمیر بھی شامل ہے ۔ کاظمی خاندان خدمت تشیع اور اشاعت اسلام میں بھی ممتاز مقام رکھتا ہے۔ سید ساجد علی نقوی، سید محمدتقی نقوی اور دوسرے ممتاز شیعہ عالم اور خطیب اُن کے ہاں آتے ہیں سید شبیر حسین کاظمی ،سید ساجد علی نقوی کی دعوت پر تحریک جعفریہ پاکستان میں شامل ہوئے اور1993ء تحریک جعفریہ پاکستان تحصیل میلسی کے بعد ازاں ضلع وہاڑی کے صدر مقرر ہوئے ۔سید شبیر حسین کاظمی کی بیٹی ڈاکٹرسید ہ حسیبہ حجاب فاطمہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد اب میڈیکل کے شعبے میں خدمات سر انجام دے رہی ہیں ۔


اشفاق احمد ملک

لاہور ہائی کورٹ ملتان بینچ میں تعیینات ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل پنجاب اشفاق احمد ملک نے فرائض
منصبی کے سبب فوجداری قوانین میں بہت مہارت حاصل کی ہے ۔ اشفاق احمد ملک 23اپریل 1968ء کو میلسی میں پیدا ہوئے ۔ انکا خاندان قیام ِ پاکستان سے پہلے معصوم شاہ روڈ ملتان سے نقل مکانی کر کے یہاں آیا تھا ۔ اشفاق احمد ملک کے والد محترم حاجی ملک خادم حسین ملتانی امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے عقیدت مند اور مرید تھے ۔ حاجی خادم حسین ملتانی کا خاندان میلسی میں ختم نبوت اور دوسری مذہبی و سیاسی تحریکوں میں پیش پیش رہا ہے ۔ 1977ء کی تحریک  نظام ِ مصطفی میں اس خاندان نے سر دھڑ کی بازی لگادی تھی ۔ حاجی خادم حسین ملتانی پاکستان نیشنل الائنس میلسی کے صدر تھے وہ تحریک نظام ِ مصطفی کے دوران اپنے خاندان کے دوسرے افراد کے ہمراہ گرفتار ہوئے اور ملتان میں مقید رہے ۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خاتمے کے بعد اُن کی رہائی عمل میں آئی ۔ ملتانی خاندان کا تذکرہ وہاڑی اور میلسی پر لکھی گئی کتابوں میں موجود ہے ۔ حاجی خادم حسین ملتانی عزت و احترام کی زندگی گزارنے کے بعد 2فروری 1995ء اس دنیا سے رخصت ہو گئے ۔
            اشفاق احمد ملک مادرِ علمی گورنمنٹ ہائی سکول میلسی میں زیر تعلیم رہے جہاں سے اُنہوں نے 1984 میں میٹرک کا امتحان پاس کیا وہ مزید تعلیم کے لیے گورنمنٹ ایمرسن کالج ملتان میں داخل ہوئے یہاں سے اُنہوں نے بی اے تک تعلیم حاصل کی اشفاق احمد ملک نے گیلانی لا کالج ملتان سے قانون کی تعلیم حاصل کی اور 1992ء میں بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے ایل ایل بی کا امتحان پاس کرنے کے بعد میلسی میں وکالت کا آغاز کیا ۔ اُنہوں نے قواعد کے مطابق 1993ء میں میلسی بار کی رکنیت اور وکالت کا لائسنس حاصل کیا۔
            23ستمبر1995ء کو ہائی کورٹ میں بطور وکیل اُنکا اندراج (enrollment)ہوا ۔ وہ 2007ء میں ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل پنجاب مقرر ہوئے ۔ 2010ء میں سپریم کورٹ میں اُنکی بطو روکیل enrollmentہوئی ۔2017ء میں پیشہ وارانہ کیریرکے دوران اُنہوں نے گورنمنٹ کالج یو نیورسٹی فیصل آباد سےایم ایس سی کرمنالوجی کا امتحان بدرجہ اول پاس کر کے گولڈ میڈل حاصل کیا۔
اشفاق احمد ملک کو قدرت نے دو بیٹوں احمد جہانزیب ملک اور اسد اللہ ملک  کی نعمت کے ساتھ ساتھ ایک بیٹی کائنات اشفاق کی رحمت سے نوازا ہے اسد اللہ ملک نے حال میں مشہور تعلیمی ادارے غلام اسحاق خان انسٹی ٹیوٹ آف انجیرنگ اینڈ سائنسز صوابی سے بی ایس انجیرنگ کی ڈگری امتیازی مارکس کے ساتھ حاصل کی ہے جہانزیب ملک چین کی یونیورسٹی ڈالین (Dalian)   میں پی ایچ ڈی environmental sciences  کا کورس مکمل کررہے ہیں کائنات اشفاق نے2022ء میں بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے نفسیات میں امتیازی پوزیشن کےساتھ ایم فل کی ڈگری حاصل کی ہے ۔
            احمد جہانزیب ملک کی اہلیہ ڈاکٹر اریبہ احمدتحصیل ہیڈ کواٹر ہسپتال جتوئی ( مظفر گڑھ )میں سینئر
وومین میڈیکل آفیسر ہیں ۔

میاں تنویراقبال ارائیں
معروف قانون دان سابق صدر بار ایسوسی ایشن دنیا پور میاں تنویر اقبال ارائیں یکم اکتوبر 1976کو ایک زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئے میاں تنوراقبال کے والد محترم محمد اقبال ارائیں نے تدریس کا پیشہ اختیار کیا اُنہوں نے محکمہ تعلیم پنجاب کے مختلف سکولوں میں تدریسی اور تنظیمی فرائض انجام دیے اور1997میں بطور ہیڈ ماسٹر اپنے عہدے سے ریٹائرڈ ہوئے میاں محمد اقبال ارائیں نے اساتذہ کے مسائل کے حل میں گہری دلچسپی لی وہ ٹیچر یونین لودھراں کے صدر منتخب ہوئے۔ قیام پاکستان سے پہلے یہ خاندان مشرقی پنجاب کے شہر ہوشیار پور رہتا تھا۔ 1940 میں میاں تنویر اقبال ارائیں کے پر دادا میاں بابا کالا اپنے آبائی شہر سے نقل مکانی کرکے ساہیوال آئے اور یہاں سکونت اختیار کی 1949میں میاں تنویر اقبال ارائیں کے دادا حاجی اللہ ڈتہ ساہیوال سے دنیا پور آگئے۔
میاں تنویر اقبال کے چچا (عم زاد میاں محمد اقبال) چوہدری محمد اشرف کا ساہیوال میں سیاسی اور سماجی  اثر ہے۔وہ چار مرتبہ پاکستان کی قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ہیں۔چوہدری محمد اشرف پنجاب بار کونسل کے وائس چیرمین بھی رہے ہیں۔ میاں تنویر اقبال مختلف تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم رہے اور1995میں اُنہوں نے تاریخی درسگاہ صادق ایجرٹن کالج بہاولپور سے بی اے کا امتحان پاس کیا۔ وہ 1993میں سید یوسف رضا گیلانی (بعد ازاں وزیر اعظم پاکستان) کی دعوت پر پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے اورپی ایس ایف پنجاب کے جنرل سیکرٹری مقرر ہوئے وہ 1997تک اس عہدے پر فائز رہے اسی سال اُنہوں نے بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتا سے ایم اے انگلش کا امتحان پاس کیا۔ علاوہ ازیں اُنہوں نے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے ایم اے تاریخ و مطالعہ پاکستان کی ڈگری بھی حاصل کی۔میاں تنویر اقبال نے اپنا تعلیمی سفر جاری رکھا۔اُنہوں نے گیلانی لا کالج ملتان سے قانون کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔ میاں تنویر اقبال 1995تا2013پاکستان پیپلز پارٹی لودھراں کے سیکرٹری تعلقات عامہ رہے ہیں دریں اثنا وہ پیپلز لائرز فارم لاہور ہائیکورٹ ملتان بینچ کے ایڈیشنل سیکرٹر ی جنرل منتخب ہوئے۔قبل ازیں اُنہوں نے13دسمبر 2001کوملتان کے معروف قانون دان محمد عارف علوی کی رہنمائی میں قانونی  کیرئر کا آغاز کیا2002میں میاں تنویر اقبال دنیا پور آگئے اور یہاں باقاعدہ وکالت کا سلسلہ شروع کیا میاں تنویر اقبال نے سماجی اور مذہبی رواداری میں دلچسپی کا مظاہرہ کیا وہ بین المذاہب ہم آہنگی کونسل پاکستان ملتان ڈویژن کے صدر مقرر ہوئے۔9مارچ 2007کو جب فوجی حکمران پرویز مشرف نے چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری کو معزول کیا تو وکلا نے اس غیر آئینی اقدام کے خلاف تاریخی جدوجہدکی میاں تنویر اقبال اس تحریک میں بہت فعال تھے انہوں نے تحریک بحالی عدلیہ کے دوران دنیاپور،ملتان،لاہور،اوراسلام آباد میں احتجاجی مظاہروں میں شرکت کی۔
میاں تنویر اقبال2008تا2012بیت المال کمیٹی ضلع لودھراں کے رکن رہے 2010میں وہ بارایسوسی ایشن دنیا پورکے جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے اس موقع پر محمد منور اسلم چوہدری دنیا پور بار کے صدر منتخب ہوئے چوہدری محمد منور اسلم اور میاں تنویر اقبال ارائیں کی مساعی جمیلہ سے دنیاپور میں تقریباً62لاکھ روپے کی لاگت سے بار روم تعمیر ہوا  اس عالی شان عمار ت کی تعمیر کے لیے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ خواجہ محمد شریف نے اپنے عہدے کے توسط سے تعاون کیا۔علاوہ ازیں ڈاکٹر بابر اعوان نے وزارت قانون کیطرف سے  10لاکھ روپے دنیا پور بار کو دیے 2018 میں میاں تنویر اقبال ارائیں بار ایسوسی ایشن دنیاپور  کے صدرمنتخب ہوئے اُن  کی کاوشوں سے دنیا پور میں وکلا کالونی کے لیے 27ایکڑ زمین مختص کی گئی علاوہ ازیں نوجوان وکلا کے لیے چیمبر بھی تعمیر ہوئے۔
۔
چوہدری مشتاق احمد تارڑ مرحوم
معروف قانون دان چوہدری مشتاق احمد تارڑ مرحوم نے فوجداری مقدمات میں غیر معمولی مہارت حاصل کی اوراپنے پیشے میں نام پیدا کیا۔چوہدری مشتاق احمد تارڑ کے آباء قیام پاکستان سے قبل پنڈی بھٹیاں (ضلع حافظ آباد) میں رہتے تھے۔انگریز حکومت کے زمانے میں چوہدری مشتاق احمد تارڑ مرحوم کے والد محترم حاجی اللہ داد تارڑ 1927میں نیلی بار آباد کار سکیم کے موقع پر وہاڑی آئے اُنہیں تحصیل وہاڑی کے چک 53/WBمیں زمین الاٹ کی گئی حاجی اللہ داد ایک امن پسند زمیندار اورگاؤ ں کے نمبر دار تھے وہ عزت و احترم کی زندگی گزارنے کے بعد 1990میں وفات پا گئے۔ چوہدری مشتاق احمد تارڑ 1اگست 1948کو پیدا ہوئے۔اُنہوں نے ابتدائی تعلیم وہاڑی سے حاصل کی وہ لاہور کی قدیمی درسگاہ گورنمنٹ کالج لاہور میں زیر تعلیم رہے جہاں انہوں نے بی اے تک تعلیم حاصل کی۔چوہدری مشتاق احمد تارڑنے 1974میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایل ایل بی کا امتحان پاس کیا اورملتان میں معروف قانون دان ملک نور محمد ایڈووکیٹ کی رہنمائی میں وکالت کا آغاز کیا بعد ازاں وہ وہاڑی آگئے چوہدری مشتاق احمد تارڑنے قانون کا گہرا مطالعہ کیا وہ محنت اورلگن کے باعث عدالتی اورقانونی معاملات سمجھنے میں کامیاب رہے اُن کا شمار فوجداری مقدمات کے بلند قامت وکلا میں ہوتا تھا 1983کے بلدیاتی انتخابات میں چوہدری مشتاق احمد تارڑ مرحوم کے برادرحقیقی چوہدری محمد اسحاق تارڑ ضلع کونسل وہاڑی کے رکن منتخب ہوئے اور 1987تک اس منصب پر فائز رہے۔
1985کے غیر جماعتی انتخابات میں محمد اسحاق تارڑ نے میاں ریاض احمد دولتانہ کے مقابلے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا۔یہ وہ زمانہ تھا جب وہاڑی میں دولتانہ خاندان کے مقابلے میں الیکشن لڑنا ہر آدمی کا کام نہیں تھا۔چوہدری مشتاق احمد تارڑ وکلا کے مسائل میں دلچسپی لیتے اور اُن کے مسائل کے حل کے لیے کوشش کرتے تھے۔ وہ 1989تا1994پنجاب بار کونسل کے رکن رہے۔چوہدری مشتاق احمد تارڑ1994میں پہلی مرتبہ اور1998میں دوسری مرتبہ ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن وہاڑی کے صدر منتخب ہوئے وہ ڈسٹرکٹ بار وہاڑی کے منظر نامے پر نمایاں رہے۔17جون2011کو چوہدری مشتاق احمد تارڑحرکت قلب بند ہو جانے کی وجہ سے وفات پا گئے اُنکی وفات پر قانونی برادری،سیاسی حلقوں اور سول سوسائٹی نے گہرے رنج و غم کا اظہار کیا  چوہدری مشتاق احمد تارڑ  کی پیشہ ورانہ کامیابیوں اور اُنکے وقار سے متاثر ہو کر اُنکے خاندان کے کچھ دوسرے افراد نے بھی قانونی پیشہ اختیار کیا تاہم اُنکے بیٹے نوید حیات تارڑ زراعت سے وابستہ ہیں۔
چوہدری مشتاق احمد تارڑ کے بھتیجے چوہدری خضر حیات تارڑ 2007میں ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن وہاڑی کے جنرل سیکرٹری اور2011میں صدر منتخب ہوئے علاوہ ازیں چوہدری مشتاق احمد تارڑ مرحوم کے بھانجے چوہدری ندیم احمد تارڑ 22نومبر 2014کو وہاڑی سیٹ کے لیے پنجاب بار کونسل کے رکن منتخب ہوئے اور2015تا2020اس منصب پر فائز رہے چوہدری مشتاق احمد تارڑمرحوم کے بھانجے چوہدری شکیل احمد تارڑ 2019میں ڈسڑ کٹ بار وہاڑی کے صدر منتخب ہوئے۔

     شیخ جمشید حیات
ایڈووکیٹ سپریم کورٹ

لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن ملتان بینچ کے سابق صدر شیخ جمشید حیات ایڈووکیٹ سپریم کورٹ جسٹس خضر حیات کے بیٹے ہیں۔جسٹس شیخ خضر حیات 1977کے عام انتخابات میں ملتان سے صاحبزادہ فاروق علی خاں سپیکر قومی اسمبلی کے مقابلے میں پاکستان قومی اتحاد کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔  شیخ خضر حیات جماعت اسلامی کے دیرینہ رکن ہیں اور اُنہوں نے ایوب خان اور ذوالفقارعلی بھٹو کے زمانے میں ریاستی جبر کا مقابلہ کیا ہے۔
 شیخ جمشید حیات 3اپریل 1960کو شہرِ اولیاء ملتان میں پیداہوئے اُنہوں نے ملت ہائی سکول ملتان سے 1975میں میٹرک کا امتحان پاس کیا اور چار سال تاریخی درسگاہ گورنمنٹ ایمرسن کالج ملتان میں زیر تعلیم رہے۔ جہاں سے اُنہوں نے 1980میں بی اے کا امتحان پاس کیا۔      شیخ جمشید حیات نے قانون کی تعلیم یونیورسٹی لا کالج ملتان سے حاصل کی علاوہ ازیں اُنہوں نے 1982میں گورنمنٹ کالج آف ایجوکیشن ملتان سے بی ایڈ کا امتحان بھی پاس کیا۔ شیخ جمشید حیات نے معروف قانون دان ملک وزیر غازی کی رہنمائی میں ملتان میں وکالت کا آغاز کیا اور دیوانی اور فوجداری مقدمات میں بہت مہارت حا صل کی پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ ساتھ اُنہوں نے وکلاکے مسائل کے حل میں بھی گہری دلچسپی ظاہر کی 1991میں شیخ جمشید حیات ڈسڑکٹ بار ایسوسی ایشن ملتان کی تاریخ کے کم عمر ترین جنر ل سیکریٹری  منتخب ہوئے۔ وہ 1994میں      ہائی کورٹ بارایسوسی ایشن ملتان کے جنرل سیکریٹری منتخب ہوئے۔ شیخ جمشید حیات 1999میں ملتان ڈویژن میں ریکارڈ ووٹوں کے ساتھ پہلے نمبرپر ملتان سیٹ سے پنجاب بار کونسل کے رکن منتخب ہوئے۔ اس موقع پر الطاف ابراہیم (بعد ازاں جسٹس لاہور ہائی کورٹ)عبدالعزیز خان نیازی،  محمد عارف علوی، محمد رمضان، خالد جوئیہ اور حبیب اللہ شاکر بھی پنجاب بار کونسل کے رکن منتخب ہوئے۔ شیخ جمشید حیات 2001میں پنجاب بارکونسل کی ڈسپلنری کمیٹی کے چیرمین منتخب ہوئے۔ شیخ جمشید حیات 2003میں سینئر وکیل ملک ارشاد رسول کے مقابلے میں ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر منتخب ہوئے  وہ اسی سال صدر کی حیثیت سیپنجاب بار کونسل کی  ایگزیکٹوکمیٹی کیچیرمین منتخب ہوئے۔ اُسی زمانے میں لاہور میں پنجاب بار کونسل کی نئی عمارت تعمیر ہوئی۔ اُنہوں نے ڈسٹرکٹ بار ملتان میں وکلاکے چیمبر ز کے لیے بشیر بلاک تعمیر کرایا۔ شیخ جمشید حیات 2010میں پہلی مرتبہ سابق جج ہائی کورٹ چوہدری صغیر احمد اور 2016میںدوسری مرتبہ محمد شیرزمان قریشی کے مقابلے میں لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن ملتان کے صدر منتخب ہوئے۔ شیخ جمشید حیات قانون کی حکمرانی اور وکلاکیبہتر حالات کے لیے سرگرم رہے ہیں۔
2007کی تحریک بحالی عدلیہ میں اُنہوں نے بھرپور حصہ لیا وہ لاہور،لودھراں، خانیوال،ملتان، گوجرانوالہ، اسلام آباد، ڈیرہ غازی خاں اور لیہ میں وکلا کے احتجاجی جلسوں میں شریک ہوئے۔ شیخ جمشید حیات 15مارچ 2009کو اُس تاریخی لانگ مارچ میں شامل تھے۔ جس کے نتیجے میں چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری پوری شان و شوکت کے ساتھ اپنے منصب پر بحال ہوئے۔شیخ جمشید حیات صوبہ پنجاب کی تقسیم اور نئے صوبے کے قیام کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ اُنہوں نے اس مقصد کے لیے وکلا کو متحرک کیا۔ علیحد ہ صوبے کے لیے وکلا کی سرگرمیاں میڈیا میں نمایاں ہوئیں 18مئی 2016کو اُنہوں نیتاریخ میں پہلی بار  ملتان،ڈیرہ غازی خاں اور ساہیوال ڈویژن کے وکلاکا کنونشن منعقد کیا جس میں کثیر تعداد میں وکلا نے شرکت کی اس موقع پرمتفقہ طور پر نئے صوبے کی قرار داد منظور کی گئی پنجاب کی تقسیم کے حوالے سے یہ ایک اہم واقعہ تھا۔   21اکتوبر 2021ء کو حکومت پنجاب نے سینیئر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل مقرر کیا اُنہوں نے 24 اکتوبر 2021 کو یہ منصب سنھبالا۔